فروری ۱۹۷۹ء میں ایران میں انقلاب اسلامی ظہور پذیر ہوا تو اسے "اِنفجارِ نور" اور "طلوعِ فجر" سے تعبیر کیا گیا اور انقلاب کی کامیابی کے انتہائی ایام کو "دہ فجر" قرار دیا گیا۔ اسی حوالے سے سورہ مبارکہ فجر کی ابتدائی آیات زبان زدعام تھیں:
وَالفَجر ! وَلِیَال عَشر
"قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔۔۔"
حضرت امام خمینی (رہ) نے جب پندرہ سالہ طویل جلا وطنی کے بعد اعجاز آمیز انداز سے تہران کی سرزمین پر قدم رکھا تو اس وقت ۱۱ فروری ۱۹۷۹ء ( بہمن ۱۳۵۷ھ ش) تک دس دنوں اور راتوں میں انقلاب کا آخری معرکہ لڑا گیا، ۱۱فروری کو شاہی طاغوت کے سراسیمہ سپاہیوں نے آخر کار ہتھیار ڈال دئیے اور تاریخ عالم میں ایک خوبصورت تازہ نورانی صبح طلوع ہوئی، واقعتاً نور پھوٹ پڑا۔ ایک ایسا نور جس نے سیاہ اور سفید چہروں میں تمیز پیدا کر دی۔ جس نے حق و باطل کی پہچان کیلئے فرقان کا کام کیا۔ جس نے چودہ سو سال پہلے کی فتح مکہ کی یادیں تازہ کر دیں اور فلک پیر نے ایک مرتبہ پھر مسجود ملائکہ کے ہاتھوں "اِنِّی اَعلَمُ مَا لاَ تعَلَمُون" کی صداقتوں کا ظہور ہوتے دیکھا۔ فضائیں ایک مرتبہ پھر ان نعروں سے گونج اٹھیں:
جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ۔(بنی اسرائیل۔۸۱)
حق آگیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل تو ہے ہی بھاگ جانے والا۔
ایک دور ایسا آیا کہ جب انسانوں نے روحانی اقدار کو فراموش کر دیا تھا۔ معنوی پیمانوں سے رفتار زماں کی پیمائش قصہ پارینہ ہو چکی تھی۔ جب مادی اقدار کا غلغلہ تھا۔ شرق و غرب مادی افکار کے اقدار میں یوں جکڑے ہوئے تھے کہ فکر و عمل سب گویا اسی کی تمناؤں کے سانچے میں ڈھل چکے تھے۔ دین و سیاست کی جدائی گویا ہمیشہ کیلئے مسلّم ہو چکی تھی۔ اہل دین کے ہاتھوں کی گرفت بھی امید کی رسی پر ڈھیلی پڑ چکی تھی۔ ایک طرف سرمایہ داری کا زور تھا تو دوسری طرف اشتراکیت کا شور۔ چھوٹی حکومتوں کے زمام دار، مشرقی اشتراکیت کی طرف امید کی نظروں سے دیکھتے تھے یا مغربی سرمایہ داری سے توقع باندھے ہوئے تھے۔ کلیسا کے اہل منصب تو کب سے اپنے پر سمیٹے مذہبی آشیانوں میں اپنے تئیں ہمیشہ کے لئے"صبر و شکر" کے دھیمے ترانے گنگنا رہے تھے۔ ایسے میں سرزمین ایران پر تکبیر کے ترانے گونج اٹھے۔ ان نعروں کی گونج میں طاغوت شرق و غرب کی بےہنگم صدائیں ماند پڑ گئیں۔ امام خمینی (رہ) واقعتا عظیم آیت الٰہی کی حیثیت سے سیاست عالم کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے۔ اس پیرسال رہبر کی آواز نے ابلیسی طاقتوں کے ایوان لرزا دیئے اور ایک مرتبہ سب اہرمنی قوتوں کے ہوش گم ہو گئے۔
آہستہ آہستہ سب شیطانوں نے اپنی چندھیا جانے والی آنکھوں کو ملنا شروع کیا اور جو سنگ ان کے پاس بچے تھے انہیں پھر سے سمیٹنا شروع کیا۔ انہوں نے اس انوکھے شگوفے کو پوری قوت سے مسل دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادی کی فریب کار نعروں کی حقیقت تو پہلے ہی طشت از بام ہو چکی تھی۔ وہ ایرانی قوم کی اس جرأت اظہار اور طلب حریت پر چیں بہ چیں تھے۔ ایرانی قوم کے انسانی و جمہوری حقوق کی ان کی نظر میں کیا وقعت ہو سکتی تھی۔ انہوں نے شاہوں، آمروں اور مطلق العنان حکمرانوں کے ساتھ مل کر سازش کی اور ابھی انقلاب تازہ بتازہ ہی تھا اور ایرانی افواج کو منّظم کرنے کیلئے ابھی منصوبے ہی بن رہے تھے کہ اس پر جنگ ٹھوس دی گئی۔اس جنگ میں وحشت و بربریت کے سب ہتھیار آزمائے گئے۔ ویرانیوں، تباہیوں اور بردباریوں کی بارش کر دی گئی۔ سامراجیوں نے ایران کے اندر موجود اپنے ایجنٹوں کو بھی حرکت دی۔ انقلاب کی اعلیٰ درجے کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا۔ صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس، اراکین پارلیمنٹ، وزراء اور فوجی قیادت کس کس کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ آخر کار حضرت امام خمینی (رہ) کی رہائش گاہ پر فضائی حملے کا منصوبہ بنایا گیا جو طبس کے صحراؤں میں ناکام و نامراد ہو گیا۔
لیکن اللہ کا ارادہ ہمیشہ اٹل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس انقلاب کو غالب کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ دشمن رسوا ہوئے اور انقلاب اپنی عظیم قیادت کی رہنمائی میں ان تمام امتحانات سے سرخرو نکلا۔ اقتصادی پابندیاں بھی بڑھتے ہوئے انقلاب کے قدم نہ روک سکیں۔ "لاشرقیہ ولا غربیہ، اسلامیہ جمہوریہ" کے ایمان افروز نعرے اسی طرح گونجتے رہے۔ ہر مشکل سے یہ انقلابی قوم اور بھی مضبوط ہو کر نکلی۔ ہر پابندی نے اس انقلاب کو اور بھی استحکام بخشا۔ اس قوم نے گویا اس پیغام پر پوری طرح عمل کرکے دکھایا۔
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
انقلاب کی قیادت نے لوگوں کو شعور بخشا کہ اگر حریت و آزادی عزیز ہے تو خود انحصاری کی منزل کو حاصل کرنا ہو گا۔ یہ پیغام لوگوں کے دلوں میں اتر گیا۔ پوری قوم تعمیروترقی کے جہاد کیلئے اٹھ کھڑ ی ہوئی اور پھر اپنے وطن کی تعمیر کے حوالے سے بھی اس قوم سے عجیب معجزات نے ظہور کیا۔ آج انقلاب کی کامیابی کو چونتیس برس گزر چکے ہیں۔ ایرانی قوم آج مصیبتوں اور آزمائشوں کے ایک کٹھن دور سے نکل چکی ہے۔ دنیا کے سامنے آج یہ قوم سرخرو کھڑی ہے اور دنیا کی پسماندہ قوموں کو آزادی و کامرانی کا پیغام دے رہی ہے۔ آج بھی ایرن لا شرقیہ لا غربیہ کی پالیسی پر گامزن ہے۔ آج بھی ایران کے فیصلے ایران میں ہوتے ہیں بلکہ صدور انقلاب کا عمل بھی ایک خوبصورت انداز سے جاری ہے۔ یہ انقلاب فوج کے ذریعے نہیں آیا تھا اور اس کا صدور بھی فوج کے ذریعے، کبھی انقلابی قیادت کا مطمع نظر نہ تھا۔ انقلاب کی عظیم قیادت نے اپنے فکر و عمل سے اس انقلاب کا پیغام ساری نوع انسانی تک پہنچایا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ہی نے عالمی تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی جو تجویز پیش کی تھی وہ بھی ایرانی قیادت کے صدور انقلاب کی حکمت عملی ہی کا اک اظہار تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی انقلاب درحقیقت عالمی انسانی انقلاب ہی کی تمہید ہے ایک ایسا انقلاب جو انسانوں کی نہ فقط عرب و عجم میں تفریق کا قائل نہیں بلکہ مشرق و مغرب کی تہذیبوں کے مابین مکالمے کے ذریعے ہم آہنگی کی فضا استوار کر نے کا عزم رکھتا ہے۔
تحریر: ثاقب اکبر