تحریر: سید محمد رضوی،
ہفتے کے دن دنیا کے 1/2 ارب کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا اور ویٹکن کے سربراہ پوپ فرانسس نے نجف اشرف ميں عالم تشیع کے گرانقدر مرجع دینی آيت الله العظمیٰ سیستانی مدظلہ سے ملاقات کی۔ 45 منٹ دورانئے کی اس ملاقات میں دونوں مذہبی پیشواؤں نے عالم انسانیت کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے دینی رہنماؤں کو اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ پوپ فرانسس جو عراق کے دورے پر ہیں، پرانے نجف میں آیت الله العظمیٰ سیستانی سے ملاقات کے لئے ان کے گھر آئے تھے۔ اس ملاقات کی ایک اہمیت وہ پرامن ماحول ہے، جو شیعہ مرجعیت کی بدولت فراہم ہوا اور پوپ کے دورہ عراق کو عملی جامہ پہنایا جاسکا ہے۔ داعش کے خلاف جہاد پر مبنی آیت الله العظمیٰ سیستانی کے فتوے اور آیت الله العظمیٰ خامنہ ای کے عملی اقدام کے ذریعے داعش کے دہشتگرد گروپ کا قلع قمع کیا گیا، جس نے عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرکے انسانیت سوز مظالم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔
مرجعیت کی سرپرستی میں قائم ہونے والی عوامی رضاکار فورسز الحشد الشعبی میں شیعہ سنی مسلمانوں کے شانہ بشانہ مسیحی دستوں نے بھی اپنے ملک اور عزت و ناموس کے دفاع میں حصہ لیا تھا۔ پوپ فرانسس نے بھی اپنے دورے میں حشد الشعبی کے مسيحی رضا کاروں کی قدردانی کرتے ہوئے ان کو تحفے دیئے ہیں۔ نجف اشرف کی دینی مرجعیت اور آسمانی ادیان کے پیروؤں کے درمیان مفاہمت کی تاریخ پرانی ہے، چنانچہ 14 ويں صدی کے مرجع اعظم آیت الله العظمیٰ محسن الحکیم (رہ) نے اہل کتاب کی ذاتی طہارت پر مبنی فتویٰ جاری کیا تھا۔ مسیحی دنیا خاص طور پر عالم عرب کے مسیحیوں میں اس فتوے کے دور رس اثرات مرتب ہوئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ آیت الله العظمیٰ حکیم (رہ) کی وفات پر مسیحیوں کے وفود نے فاتحہ خوانی اور تعزیتی مجالس میں شرکت کی تھی، جو 40 دنوں تک نجف اشرف ميں جاری رہیں، ان میں ان کے اعلیٰ پائے کے اساقفہ اور پیشوا بھی شامل تھے۔
عالم مسیحیت اور عالم اسلام کے دو عظیم رہنماؤں کی حالیہ ملاقات بھی دنیا کے معروضی حالات کے تناظر میں، خاص طور پر انسانیت دشمن عناصر، ظالم طاقتوں اور تکفیری و دہشتگردانہ سوچ رکھنے والوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے میں ممد و معاون ثابت ہوگی۔ ملاقات کے دوران پوپ فرانسس نے عراق کے مذہبی و نسلی گروہوں کے درمیان یکجہتی کے قیام اور دہشتگردوں کے مقابلے میں ان کے تحفظ کے حوالے سے آیت الله سیستانی کے کردار کو سراہا۔ ملاقات میں اقوام عالم اور مختلف ادیان و مذاہب کے پیروؤں کے درمیان امن و بھائی چارے کی فضا قائم رکھنے پر زور دیا گیا۔ اسی طرح اس دور میں عالم انسانیت کو درپیش بڑے چیلنجز اور ان چیلنجز پر قابو پانے کے لئے الله تعالیٰ اور اس کی طرف سے آنے والے رسولوں پر ایمان اور عظیم اخلاقی اقدار پر عمل کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔
اس تاریخی ملاقات کے حوالے سے آیت الله العظمیٰ سیستانی کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ سید سیستانی نے دنیا کے مختلف ممالک میں لوگوں پر ہونے والے ظلم و جبر، غربت و افلاس اور دینی و نظریاتی شدت پسندی، بنیادی آزادیوں سے محرومی اور اجتماعی عدالت کے فقدان پر روشنی ڈالی۔ اسی طرح آپ نے مشرق وسطیٰ میں جنگ، پرتشدد کارروائیوں، اقتصادی پابندیوں اور ہجرت پر مجبوری جیسے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطین کے مظلوم عوام کا ذکر کیا۔ آیت الله العظمی سیستانی نے ان مسائل اور چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کے لئے دینی رہنماؤں اور روحانی پیشواؤں کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ان مسائل کے حل کے لئے متعلقہ اشخاص و حلقوں، خاص طور پر بڑی طاقتوں پر زور دیں گے کہ وہ عقل و منطق اور حکمت کو جنگ و جدال پر ترجیح دیں اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر دیگر اقوام کی باعزت اور آزادانہ زندگی کے حقوق کو پامال کرنے اور اپنے مفادات کو توسیع دینے سے گریز کریں۔
آپ نے پرامن بقائے باہمی اور انسانی ہمدردی کے اقدار کو معاشروں میں فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: یہ سب کچھ تب ہوگا جب مختلف ادیان و مذاہب اور مکاتب فکر کے ماننے والے باہمی احترام کا رشتہ برقرار رکھیں اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔ بیان کے مطابق ملاقات میں سید سیستانی نے عراق کے حیثیت اور اس کی عظیم تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف ادیان و مذاہب سے تعلق رکھنے والی عراقی اقوام کی خصوصیات کی جانب بھی اشارہ کیا۔ مرجع عالی قدر نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ ان شاء الله عراق موجودہ مشکل حالات سے بہت جلد سرخرو ہوکر نکلے گا۔ آپ نے فرمایا کہ مرجعیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ عراق کے مسیحی بھی دیگر تمام عراقی شہریوں کی طرح امن و سلامتی اور تمام آئینی و دستوری آزادیوں کے ساتھ زندگی گزاریں۔
اس سلسلے میں گذشتہ سالوں میں ان ادیان و مذاہب کے پیروؤں کو داعش کے ظلم و ستم سے بچانے کے لئے مرجعیت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی جانب بھی اشارہ کیا گیا۔ خاص طور پر اس دور کا ذکر کیا گیا، جب عراق کے مخلتف صوبوں کے بڑے حصوں پر دہشتگردوں نے قبضہ کیا تھا اور ایسی مجرمانہ کارروائیاں کی گئیں، جن سے جبین انسانیت شرم سے جھگ جاتی ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت الله العظمی سیستانی نے پوپ فرانسس اور کیتھولک کلیسا کے ماننے والوں اور تمام عالم بشریت کے لئے خير سگالی و سعادت کا اظہار کیا اور ملاقات کے لئے سفر کی تھکاوٹ برداشت کرتے ہوئے نجف اشرف تشریف لانے پر پوپ فرانسس کا شکریہ ادا کیا۔
آیت الله العظمیٰ سیستانی اور کیتھولک مسیحیوں کے سربراہ پوپ فرانسس کی ملاقات
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے