اگر حضرت مسیح(ع) ہمارے درمیان ہوتے ۔

Rate this item
(0 votes)
اگر حضرت مسیح(ع) ہمارے درمیان ہوتے ۔

ایرانی معروف اخبار کیہان نے پوپ فرانسس کے دورہ عراق پر ایک اداریہ لکھا ہے جس کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:
1۔ دنیا کے کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا پوپ فرانسس کا دور عراق اگرچہ بجائے خود بھی دنیا کے ذرائع ابلاغ کے لئے ایک دلچسپ خبر سمجھا جاتا تھا لیکن جس چیز نے اس دورے کو مزید اہمیت دی ہے اور اس کو بہت سے ذرائع کی پہلی خبر میں تبدیل کیا ہے، وہ یہ ہے کہ انھوں نے عالم تشیع کے مرجع عالی قدر حضرت آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کی ہے اور یہ ملاقات کل صبح نجف اشرف میں حضرت آیت اللہ سیستانی (حفظہ اللہ تعالی) کی رہائش پر انجام پائی۔ عالمی مذہبی مراکز اور سیاسی حلقوں کا خیال تھا کہ اس ملاقات میں بہت اہم اور فیصلہ کن مسائل پر بات چیت ہوگی کیونکہ حضرت آیت اللہ سیستانی عالم تشیع کے ایک نمایاں اور عالی قدر مرجع تقلید کے طور پر، جو اسلام کے دفاع و تحفظ کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں - اور پوپ فرانسس - جو عالمی کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا ہیں - اس ملاقات کے دو فریق تھے۔
2۔ حضرت آیت اللہ سیستانی کا چھوٹا اور سادہ سا گھر، شاید پوپ کے لئے اس ملاقات کا اولین پیغام تھا۔ ایک بزرگوار شیعہ مرجع تقلید - جن کو عراق میں بہت زیادہ طاقت اور مقبولیت حاصل ہے - ایسے حال میں ایک چھوٹے اور سادہ گھر میں رہنے پر اکتفا کرچکے ہیں، کہ اس ملک میں صدام کے افسانوی اور اشرافی محلات کافی شہرت رکھتے ہیں۔
3۔ کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا ایسے حال میں پورے امن و سکون کے ساتھ عراق میں داخل ہوئے ہیں اور حضرت آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کے لئے نجف اشرف چلے گئے ہیں، کہ کچھ عرصہ قبل امریکی ساختہ تکفیری دہشت گرد، مغربی-عبرانی-عربی اتحاد کی افشاء شدہ پشت پناہی سے، اس ملک کے مظلوم عوام کو خاک و خون میں تڑپاتے رہے ہیں لیکن حضرت آیت اللہ سیستانی کے فتوائے جہاد کی روشنی میں عراق کے پاک باز نوجوانوں نے الحاج قاسم سلیمانی اور الحاج ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھی مجاہدوں کی قیادت میں، داعش کے تکفیری دہشت گردوں کا قلع و قمع کردیا تھا اور عراق کی مقدس سرزمین اور اس ملک کے باسیوں - خواہ و شیعہ یا سنی ہوں خواہ عیسائی ہوں - کو فساد اور تباہی کے ان خونخوار جرثوموں سے نجات دلائی تھی۔
4۔ پوپ فرانسس ایسے حال میں حضرت آیت اللہ سیستانی اور عراقی عوام کے مہمان بنے ہیں اور ایسے حال میں تکریم و احترام کے ساتھ ان کی پذیرائی ہورہی ہے کہ امریکہ نے نہ صرف عراقی عوام کے بزرگوار اور جان نثار مہمان الحاج قاسم سلیمانی کی حرمت کا پاس نہیں رکھا تھا بلکہ نہایت نامردی کے ساتھ، چوری چپکے ان کے اور ان کے رفیق کار ابو مہدی المہندی - جو عراق میں تکفیری دہشت گردوں سے نمٹنے میں سب سے بڑا کردار ادا کرچکے تھے - کو عراقی سرزمین پر دہشت گردانہ حملے میں شہید کردیا تھا۔
5۔ نہ صرف عراق کے مسلم عوام، اپنے آج کے امن و سلامتی کو بزرگوار مرجعیت حضرت آیت اللہ سیستانی، الحشد الشعبی اور شہید سلیمانی و شہید ابو مہدی المہندس وغیرہ کا مرہون منت سمجھتے ہیں بلکہ عراق کے عیسائیوں کا امن و سکون اور ان عراق میں عیسائی گرجاگھروں کی بقاء ان عظیم شہیدوں کی پاک بازی اور ایثار کا ثمرہ ہے۔ حضرت آیت اللہ سیستانی کے دفتر نے پوپ کی ان کے ساتھ ملاقات کے بارے میں ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اس نکتے کی طرف اشارہ ہؤا ہے اور وہ یوں کہ "موصوف [حضرت آیت اللہ سیستانی] نے عیسائیوں کے تحفظ پر بھی زور دیا جو دوسرے عراقی شہریوں کی طرح امن و سلامتی سے بہرہ ور ہیں اور پورے بنیادی حقوق کے ساتھ عراق میں زندگی بسر کررہے ہیں"۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ حضرت آیت اللہ سیستانی نے اس ملاقات کے دوران، حالیہ برسوں میں عیسائیوں سمیت ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے تمام عراقی باشندوں کے تحفظ کے سلسلے میں دینی مرجعیت کے کردار پر روشنی ڈالی؛ بالخصوص ان ایام میں جب دہشت گردوں نے عراق کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا اور وہاں مجرمانہ اقدامات کے مرتکب ہوئے۔
6۔ اور بالآخر اس ملاقات میں امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے ساتھ پوپ جان پل دوئم کے نمائندے بشپ آنیبیل بوگنینی (Annibale Bugnini) کی یاد کو تازہ کر دیا جس کی طرف مختصر اشارہ، لطف سے خالی نہیں ہے:  
حضرت امام (رح) نے اس ملاقات میں پوپ جان پل دوئم کے لئے پیغام بھجوایا لیکن بدقسمتی سے جناب پوپ نے اس کا جواب نہیں دیا۔ امام خمینی(رح) نے ان سے پوچھا تھا کہ اگر حضرت عیسی (علیہ السلام) ہمارے درمیان ہوتے اور ایران اور ایرانی عوام پر ہونے والے امریکی مظالم کو دیکھتے، تو آپ بتایئے کہ وہ ہماری حمایت کرتے یا امریکہ کی؟ امام خمینی(رح) کے کلام کا متن کچھ یوں ہے:
"اگر عیسی مسیح (علیہ السلام) اس وقت ہمارے پاس ہوتے، تو جناب پوپ اور دیگر مذہبی راہنما کیا یہ احتمال دے سکتے تھے کہ جناب عیسی [امریکی صدر] کارٹر اور ایران کے معزول شاہ سے جا ملتے اور ہماری مظلوم ملت کو اپنے حال پر چھوڑ دیتے؟! جناب پوپ اور عیسائی علماء اور تمام مذاہب کے مذہبی راہنما، کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر حضرت عیسی مسیح (علیہ السلام) آجائیں ہمارے پاس، تو وہ مظلوم کا ساتھ دیں گے یا ظالموں کی جماعت کا؟ قاعدہ یہ ہے - میں یہ بات حضرت عیسی (علیہ السلام) کے مقام و مرتبے کے لحاظ سے کہہ رہا ہوں - کہ مسیح کا عظیم مرتبہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ ظالم پر اعتراض کریں، ظالم کو ظلم سے باز رکھیں۔ آپ بھی حضرت عیسی (علیہ السلام) کی امت کے علماء ہیں اور آپ کی قومیں بھی حضرت عیسی (علیہ السلام کی پیروکار ہیں، ان اقوام کو بھی حضرت عیسی (علیہ السلام) کی پیروی کریں۔ کیا [عیسائی] اقوام کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) - نعوذ باللہ - ظالم کے ساتھ متفق ہیں؟! اور مظلوم کے خلاف ہیں؟! اور میں نہیں سمجھتا کہ ایک عیسائی ملے اور ایسی بات کرے"۔ (29 نومبر 1979ء)
یاد رہے کہ امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) نے مورخہ 25 دسمبر 1979ء کو بھی عیسائی علماء کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امریکی جرائم کے بعض نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "کیا جناب پوپ ان مسائل سے بخوبی واقف ہیں لیکن پھر بھی ہماری مذمت کرتے ہیں؟ یا کوئی انہیں غلط انداز سے رپورٹ دیتا ہے؟ اگر ان مسائل سے آگاہ ہیں تو وائے ہو ہمارے حال پر اور وائے ہو عیسائیت کے حال پر، اور وائے ہو عیسائی علماء کے حال پر، اور اگر آگاہ نہیں ہے تو وائے ہو ویٹیکن  (Vatican) پر"۔
7۔ عراق کے شریف عوام پر ڈھائے گئے امریکی مظالم اس قدر وسیع و عریض اور مکرر در مکرر ہیں کہ انہیں گنا نہیں جاسکتا اور ان مظالم کی فہرست بہت طویل ہے۔ چنانچہ توقع کی جاتی ہے کہ جناب پوپ فرانسس حضرت آیت اللہ سیستانی کے ساتھ ملاقات اور ظلم، تباہی اور فساد کے خلاف جدوجہد اور خونخوار اور لٹیری عالمی استکباری طاقتوں کے چنگل سے بنی نوع انسان کی نجات کے حوالے سے ان کی اصل فکرمندیوں اور اندیشوں سے آگہی، کے بعد خمینی کبیر (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے بےجواب سوال کے لئے مناسب جواب تلاش کریں جبکہ یقینا جناب آیت اللہ سیستانی (حفظہ اللہ تعالی) کے کہے اور ان کہے سوالات کا جواب بھی ہے؛ کہ "اگر حضرت مسیح (علیہ السلام) ہمارے درمیان ہوتے، تو کیا وہ امریکہ اور حضرت عیسی (علیہ السلام) کی پیروی کے دعویدار دوسرے مغربی ممالک کے بےشمار جرائم پر خاموشی اور غیر جانبداری اختیار کرتے اور اپنی خاموشی سے امریکہ اور دوسری استکباری طاقتوں کی حمایت کرتے، یا نہیں، بلکہ مظلوم اقوام کے دفاع کے لئے آگے بڑھتے؟ اور ہاں جناب پوپ فرانسس، عالمی کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا کے طور پر کس طرف جاتے؛ حضرت عیسی (علیہ السلام) کا ساتھ دیتے یا پھر ۔۔۔ ؟
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حسین شریعتمداری، روزنامہ کیہان کے ایڈیٹر انچیف
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

Read 550 times