امریکی صدر نے 2 اپریل کو 2022ء کا مجوزہ بجٹ امریکی کانگریس کے حوالے کر دیا ہے۔ اس مجوزہ بجٹ میں دفاعی اخراجات کے لیے 753 ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ اگر یہ مجوزہ بجٹ کانگریس میں منظور ہو جاتا ہے تو 715 ارب ڈالر براہ راست امریکی وزارت جنگ پینٹاگون کے سپرد کر دیئے جائیں گے۔ اس بجٹ میں چین اور روس کا مقابلہ کرنے کے لیے نیز ایٹمی ہتھیاروں کی تجدید اور بیالوجیکل ہتھیاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے خطیر رقم مختص کی گئی ہے، اس کے علاوہ ہائپر سونیک ہتھیاروں کی تیاری اور بحری جنگی جہازوں کو جدید بالسیٹک میزائلوں سے لیس کرنے کے لیے بھی بجٹ میں مختلف رقوم رکھی گئی ہیں۔ دوسری طرف فوجی بجٹ میں اضافے پر امریکہ کے اندر سے شدید تنقدیں بھی سامنے آرہی ہیں۔
امریکہ کا انفراسٹرکچر بری طرح تباہ ہو رہا ہے اور جو بائیڈن نے اس کی تعمیر کے لیے خطیر رقم کا اعلان کیا ہے، لیکن اس کے باوجود ڈیموکریٹس حکومت پر اعتراض ہو رہا ہے کہ فوجی بجٹ میں جتنا اضافہ ہوا ہے، انفراسٹرکچر کی تعمیر و مرمت پر اتنی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ ہمیشہ امریکہ کی سڑکوں، پلوں اور دیگر انفراسٹرکچر کی زبوں حالی پر بہت زیادہ بیانات دیتے تھے اور انھوں نے اعلان بھِی کیا تھا کہ امریکی انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے لازمی اقدامات انجام دیں گے۔ امریکی بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ فوجی اخراجات پر استعمال ہو رہا ہے، جبکہ امریکہ میں سڑکوں، پلوں، پانی و بجلی کے محکموں اور دیگر ضروری استعمال کے وسائل ناگفتہ بہہ صورت حال اختیار کرچکے ہیں، لیکن امریکی حکومت مقامی مسائل پر خرچ کرنے کی بجائے فوجی اقدامات اور فوجی صنعت پر اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جو بائیڈن کے دور حکومت کا بجٹ ڈونالڈ ٹرامپ کے فوجی بجٹ سے بڑھ گیا تو امریکی انفراسٹرکچر کو سخت نقصان پہنچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت امریکی سینیٹ میں فوجی بجٹ کی مخالفت سامنے آرہی ہے اور ری پبلکنز سینیٹر بالخصوص مارکو روبیو، میچ مک کامل اور آزاد سینیٹر برنی سینڈرز فوجی بجٹ میں اضافے پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ برنی سینڈرز کے بقول جب امریکی فوجی بجٹ بارہ ملکوں کے مشترکہ فوجی بجٹ سے بھی زیادہ ہے تو امریکہ کو اپنے فوجی بجٹ پر نظرثانی کرنی چاہیئے۔ امریکہ کا وسیع فوجی بجٹ اور اس میں حالیہ اضافہ ایسی صورت میں انجام پانے جا رہا ہے کہ اسی ملک میں کرونا سے مرنے والوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
اس وقت تک تین کروڑ سے زیادہ امریکی شہری کرونا وائرس میں مبتلا ہیں جبکہ اس وائرس کی وجہ سے پانچ لاکھ ساٹھ ہزار امریکی وفات پا چکے ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد میں روز بروز اضافے کے ساتھ ساتھ امریکہ میں اقتصادی زبوں حالی، بے روزگاری، غربت و افلاس اور دیگر سماجی مشکلات میں اضافہ زبان زد خاص و عام ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کو اپنی عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے فوجی صنعت کی ترقی اور دوسرے ممالک کے خلاف جنگی اقدامات کی جاری رکھنا زیادہ عزیز ہے۔ موجودہ بجٹ میں امریکہ نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو اب گریڈ کرنے کے لیے بھاری رقوم مختص کی ہیں، حالانکہ عالمی معاہدے اس کی اجازت نہیں دیتے، امریکہ نہ صرف انہیں اپ گریڈ کر رہا ہے بلکہ انہیں پھیلانے میں بھی مصروف ہے۔
ایٹمی سائنس کے بارے میں اعداد و شمار جاری کرنے والے ادارے "اٹامک سائنس بولٹن" نے 2019ء کے بارے میں جاری کردہ اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکہ کے پاس 6185 ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں، جن میں 150 یورپ کے مختلف ملکوں میں موجود اسٹریٹجک فوجی اڈوں میں رکھے گئے ہیں۔ آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے سابق سربراہ برترانڈ گولڈ اشمیٹ کا اسی تناظر میں کہنا ہے کہ امریکہ اور اسی طرح کی دیگر عالمی طاقتوں کا غیر منطقی طریقہ کار عالمی سطح پر سیاسی، سلامتی اور فوجی بحرانوں کا باعث بنا ہے، جس کی وجہ سے عالمی امن و صلح کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ ایران مغربی طاقتوں کے برخلاف مذہبی اور اخلاقی فریضے کی بنیاد پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال کو حرام ہونے کا دنیا میں اعلان کرچکا ہے اور باقاعدہ طور پر اقوام متحدہ کی دستاویز میں رجسٹرڈ بھی کروا چکا ہے۔
امریکہ کا فوجی بجٹ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں امریکی فوجی اڈوں کی تعداد بھی دنیا کے کسی بھی ملک سے کئی گنا زیادہ ہے۔ امریکہ اپنے ہتھیاروں کی صنعت کا منافع برقرار رکھنے کیوجہ سے بھی عرب ممالک کو ایرانو فوبیا اور دوسرے خطرات سے گاہے بگائے ڈراتا رہتا ہے، تاکہ یہ ممالک امریکہ سے زیادہ سے زیادہ ہتھیار خریدیں۔ قابل غور و فکر نکتہ یہ ہے کہ امریکہ کو اپنے جدید ہتھیاروں اور اسلحہ کی صنعت کے باوجود اس وقت بجٹ کے خسارے کا سامنا ہے۔ امریکہ دنیا کا سب سے مقروض ملک بھی ہے، جبکہ جنگی میدان میں تمام تر دعووں کے باوجود مسلسل شکست سے دوچار ہے، افغانستان اس کے لیے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ عراق میں امریکی انخلاء کا نعرہ زبان زد خاص و عام ہے۔ شام و لبنان میں بھی امریکی لابیاں آخری سانس لے رہی ہیں۔ اگثر تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکہ جنگی میدان میں ویت نام سے لے کر اب تک مسلسل شکستوں سے دوچار ہے اور اس کا مستقبل بھی زیادہ روشن نہیں ہے۔ چین اقتصادی میدان میں امریکہ کو شکست فاش دینے کے لیے تیار ہے، جبکہ جنگی میدان میں امریکہ کو مسلسل ناکامیوں کا سامنا ہے۔ ایسے میں نئے سال کے بجٹ مین 715 ارب ڈالر کا بجٹ پینٹاگون کو کونسی کامیابیاں عظا کرسکتا ہے، اس کا کہیں سے مثبت جواب سننے کو نہیں مل رہا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی