ڈیمونا کو پہلا صدمہ

Rate this item
(0 votes)
ڈیمونا کو پہلا صدمہ
اسرائیل میں ایک میزائل تیار کرنے والی فیکٹری میں خوفناک دھماکے کے کچھ دن بعد ہی غاصب صہیونی رژیم کے ڈیمونا نامی جوہری ری ایکٹر کے قریب ایک زوردار دھماکہ سنائی دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ دھماکہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے ایک میزائل کی وجہ سے ہوا ہے، جو شام کی سرزمین سے فائر کیا گیا تھا۔ اسرائیلی حکام نے اس واقعے کے منظرعام پر آنے کے آغاز سے ہی یہ تاثر دینا شروع کر دیا تھا کہ ڈیمونا جوہری ری ایکٹر کو نشانہ بنانا مقصود نہیں تھا، البتہ وہ اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کی ناکامی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔ دوسری طرف ایک اسرائیلی تھنک ٹینک کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان اقدامات کو نطنز میں تخریب کاری کا انتقام قرار نہیں دیا جا سکتا، لہذا ہمیں ایران کی ممکنہ انتقامی کارروائی کیلئے تیار رہنا چاہیئے۔

ابھی گذشتہ ہفتے منگل کے روز اسرائیل کی ایک میزائل تیار کرنے والی فیکٹری میں دھماکے کی خبر میڈیا سے غائب نہیں ہوئی تھی کہ جمعرات کی صبح سائرن کی آوازوں نے ایک بار پھر غاصب صہیونیوں کو چونکا دیا۔ میڈیا ذرائع نے اطلاع دی کہ ایک میزائل ڈیمونا ایٹمی پلانٹ کے قریب ہی گرا ہے۔ صہیونی اخباری ذرائع کے مطابق یہ میزائل شام کی سرزمین سے فائر کیا گیا تھا۔ غاصب صہیونی فوج کی جاری کردہ رپورٹ میں اسرائیل کی جوہری تنصیبات کے قریب میزائل گرنے کی تصدیق کرتے ہوئے فضائی دفاعی سسٹم کی ناکامی کا بھی اعتراف کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ میزائل SA 5 نوعیت کا تھا، جو روسی ساختہ ہے اور S 200 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ میزائل شام کے فضائی دفاعی نظام کا حصہ تھا۔

اس واقعے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ شام سے فائر کیا گیا میزائل مقبوضہ فلسطین کی فضائی حدود میں 125 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد زمین پر گرا ہے اور اس دوران اسرائیل کی فضائی دفاعی شیلڈ حتی اس کی تشخیص دینے میں بھی ناکامی کا شکار رہی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابتدا میں یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ اس میزائل کی نوعیت کیا ہے۔ لہذا ابتدائی رپورٹ میں اعلان کیا گیا کہ زمین سے زمین پر مار کرنے والا ایک میزائل نقب کے علاقے میں آ گرا ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل تھا۔ اسی طرح ابتدا میں اسرائیلی ذرائع نے یہ دعویٰ کیا کہ ہمارے فضائی دفاعی سسٹم کی جانب سے اسے روکنے کیلئے میزائل فائر کئے گئے تھے لیکن معلوم نہیں اسے روک پائے یا نہیں۔

غاصب صہیونی فوج کے ترجمان اویخائے ادرعی نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا: "شام سے فائر ہونے والے میزائل کے بارے میں ابتدائی تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارا فضائی دفاعی نظام اسے ڈیٹکٹ کرنے میں ناکامی کا شکار ہوا ہے۔" اسی طرح غاصب صہیونی رژیم کے وزیر جنگ بنی گانتیز نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: "میزائل کو ڈیٹکٹ کرنے کی کوشش انجام پائی لیکن ناکامی کا شکار ہوئی۔ ہم بدستور اس حادثے کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں۔" ڈیمونا شہر کے میئر بنی بیتان نے ایف ایم 103 نامی صہیونی ریڈیو چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "تمام تر حفاظتی اقدامات کے باوجود ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ڈیمونا ایٹمی ری ایکٹر تک رسائی ممکن ہے۔ میں صبح اٹامک پلانٹ کے سربراہ کی فون کال آنے پر بیدار ہوا لیکن اس وقت بھی خطرے کی گھنٹی نہیں بج رہی تھی اور صرف محدود علاقوں میں شور شرابہ سنا جا رہا تھا۔"

غاصب صہیونی رژیم کے سابقہ وزیر جنگ اویگڈور لیبرمین نے جمعرات کی صبح ہونے والے دھماکے کے بارے میں اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا: "جن حالات میں 200 کلوگرام کا وار ہیڈ رکھنے والا میزائل اسرائیل پر آن گرا ہے، ان کا نتیجہ کچھ اور بھی نکل سکتا تھا۔ نیتن یاہو سوتا رہتا ہے اور صرف اپنے ذاتی کاموں کی تیاری میں مصروف ہے۔" غاصب صہیونی رژیم کے تھنک ٹینک سکیورٹی ریسرچ سنٹر کے سربراہ عاموس یادلین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ ایران کی جانب سے نطنز کی تخریب کاری کا جواب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: "یقین رکھیں ڈیمونا کا حادثہ ایران کی جوابی کارروائی نہیں ہے۔ ہم بہت سخت حالات سے گزر رہے ہیں۔ ایرانیوں نے ابھی تک انتقام نہیں لیا۔ اس کے باوجود ہمیں سکون کا سانس لینا چاہیئے کہ گرنے والا میزائل ایرانی نہیں تھا۔"

صہیونی اخبار معاریو کے تجزیہ کار طال لیف رام نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ میزائل کا ٹارگٹ ڈیمونا جوہری ری ایکٹر نہیں تھا، لیکن ان کا یہ دعویٰ غاصب صہیونی رژیم کے کمزور فضائی دفاعی نظام پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔ لبنانی اخبار "الاخبار" نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کی کمزوری کا واضح ثبوت ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے: "اس واقعے کے بارے میں اسرائیل کا سرکاری موقف بہت شکوک و شبہات کا حامل ہے۔ فائر ہونے والے میزائل اور اسے فائر کرنے والے کے بارے میں بہت سے سوالات پائے جاتے ہیں۔" رای الیوم آنلائن اخبار کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان اس بارے میں لکھتے ہیں: "ڈیمونا کی جانب فائر ہونے والا میزائل شاید جنگ کے قوانین میں تبدیلی کی نوید سنا رہا ہے۔ اس میزائل نے پرانے تمام جنگی قوانین کو روند ڈالا ہے۔"
 
 
تحریر: علی احمدی
Read 457 times