اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے اپنی ناجائز تشکیل کے پہلے دن سے امریکہ اور بعض عرب ممالک کی غیر مشروط حمایت اور عالمی تنظیموں کی مجرمانہ خاموشی کے سائے تلے تسلط پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھا ہے۔ جب ستر سال پہلے مغربی ایشیا خطے میں اس منحوس رژیم کی بنیاد ڈالی گئی تو کوئی یہ سوچ بھی سکتا تھا کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کا دعوی کرنے والی عالمی تنظیمیں مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں ظالم صہیونی رژیم کے ظالمانہ اور مجرمانہ اقدامات کے سامنے اس حد تک مجرمانہ خاموشی اختیار کریں گی۔ فلسطینیوں نے 15 مئی 1948ء کے دن کو "یوم النکبہ" قرار دیا۔ یہ وہ دن ہے جب غاصب صہیونی رژیم کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔ لیکن علاقائی اور عالمی سطح پر حالات صہیونی رژیم کے سخت خلاف ہیں۔
اگرچہ 1948ء سے لے کر آج تک اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم مختلف قسم کے بحرانوں سے روبرو رہی ہے لیکن حالیہ چند برسوں سے یہ رژیم بدترین سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ 2018ء کے آخر میں بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ ٹوٹ جانے کے بعد 9 اپریل 2019ء کے دن وقت سے پہلے مڈٹرم پارلیمانی الیکشن منعقد ہوئے۔ لیکن اس کے بعد بھی نیتن یاہو حکومتی اتحاد تشکیل دینے میں ناکام رہے۔ یوں چھ ماہ بعد 17 ستمبر 2019ء کے دن دوبارہ پارلیمانی الیکشن کا انعقاد کیا گیا۔ لیکن اس بار بھی کوئی سیاسی جماعت بھاری اکثریت حاصل کر کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ آ سکی۔ لہذا ایک عبوری حکومت تشکیل دے دی گئی اور طے پایا کہ حکومت کچھ عرصے تک لیکوڈ پارٹی کے سربراہ نیتن یاہو اور کچھ عرصہ بنی گانٹیز کے سپرد کی جائے گی۔
23 مارچ 2021ء کے دن مقبوضہ فلسطین میں دو سال کے اندر چوتھی بار پارلیمانی الیکشن منعقد کئے گئے۔ اس کے بعد ایک بار پھر صدر نے بنجمن نیتن یاہو کو کابینہ تشکیل دینے کی دعوت دی۔ نیتن یاہو کو 4 مئی تک دیگر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر نئی حکومت تشکیل دینے کی مہلت دی گئی ہے۔ اگر وہ اس مدت میں حکومت تشکیل نہیں دے پاتے تو یہ مہلت ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کو دے دی جائے گی۔ بنجمن نیتن یاہو اب تک نئی کابینہ کی تشکیل کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے میں ناکام رہے ہیں۔ دوسری طرف ان کے سیاسی حریف بنی گانٹیز نے ان پر شدید تنقید کا آغاز کر رکھا ہے اور کہا ہے کہ وہ اب تک ملک کا نیا بجٹ منظور کروانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔
معروف صہیونی تھنک ٹینک "یہود ایجنسی" کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 70 فیصد صہیونی شہریوں کا خیال ہے کہ اگر انہیں کسی دوسرے ملک میں بہتر مواقع میسر آتے ہیں تو وہ مقبوضہ فلسطین چھوڑ دیں گے۔ اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 68 فیصد صہیونی شہری دیگر ممالک کی شہریت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں جبکہ 73 فیصد صہیونیوں کا عقیدہ ہے کہ صہیونی حکمران ان کے بچوں کیلئے بہتر مستقبل کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتے۔ 1948ء میں مقبوضہ فلسطین پر ناجائز صہیونی ریاست کی تشکیل کے آغاز سے ہی صہیونی حکمرانوں نے اپنے لئے ایک جعلی تشخص ایجاد کرنے کی سرتوڑ کوششیں کی ہیں۔
صہیونی رژیم نے جعلی تشخص پیدا کرنے کیلئے مختلف قسم کے اقتصادی، فوجی، سیاسی اور حتی علمی ہتھکنڈے بروئے کار لائے ہیں۔ ان کا ایک علمی ہتھکنڈہ تاریخ میں تحریف ایجاد کرنا ہے۔ لیکن امریکہ اور برطانیہ جیسی عالمی طاقتوں کی غیر مشروط حمایت اور ان شیطانی ہتھکنڈوں کے باوجود اپنے مقصد میں ناکام رہی ہے۔ دنیا کی اکثر عوام خاص طور پر مغربی ایشیا خطے کے افراد اب تک صہیونیوں کو غاصب اور قابض تصور کرتے ہیں جبکہ فلسطینی باشندوں کو اس سرزمین کا حقیقی مالک قرار دیتے ہیں۔ صہیونی حکمران "نیل سے فرات تک" کے منحوس تصور کی روشنی میں ناقابل عمل آرزوئیں دل میں لئے بیٹھے تھے لیکن فلسطینیوں کی شجاعانہ مزاحمت نے انہیں اپنی چار دیواری میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔
قابض صہیونی رژیم نے مقبوضہ فلسطین خاص طور پر قدس شریف کو یہودیانے کی بھرپور کوشش انجام دی لیکن سات عشرے گزر جانے کے باوجود اور بعض عرب حکمرانوں کی غداری اور غاصب صہیونی رژیم سے سازباز کے باوجود وہ قدس شریف اور مقبوضہ فلسطین کا اسلامی تشخص ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ فلسطینی عوام نے صہیونی قوتوں کے ہاتھوں اپنی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ قائم ہو جانے کے باوجود استقامت اور مزاحمت برقرار رکھی ہے اور مسلسل اپنے جائز حقوق کے دفاع کیلئے جدوجہد میں مصروف رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی یہ مزاحمت سادہ ترین آلات سے شروع ہوئی ہے اور آج وہ ٹھیک نشانے پر مار کرنے والے میزائلوں سے لیس ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف غاصب صہیونی رژیم روز بروز زیادہ منفور، کمزور، گوشہ نشین اور شکست خوردہ ہوتی جا رہی ہے۔
تحریر: محسن ایران دوست