آج بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین پر کیوں بحث کرتے ہیں، یہ مسئلہ ختم ہوگیا ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کسی صورت میں ختم نہیں ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ یہ تصور کریں کہ فلسطین کے اصلی مالک فلسطینی ہمیشہ اپنی اولاد کے ہمراہ اہنی سرزمین سے باہر رہیں گے یا جو فلسطینی مقبوضہ سرزمین میں ہیں وہ ہمیشہ دبی ہوئی اقلیت کی صورت میں زندگی بسر کریں گے اور غیر ملکی غاصب وہاں ہمیشہ رہیں گے، نہیں ایسا نہیں ہے۔ وہ ممالک جو سو سال تک دوسرے ملک کے تصرف میں رہے ہیں انہیں دوبارہ استقلال مل گیا۔ یہی قزاقستان، جارجیا اور مرکزی ایشیائی ممالک جنہیں آپ دیکھ رہے ہیں ان میں بعض سوویت یونین اور بعض سوویت یونین سے پہلے روس کے قبضے میں تھے جب سوویت یونین کا وجود بھی نہیں تھا لیکن ان کو استقلال مل گیا اور وہ اپنے عوام کو مل گئے لہذا کوئی وجہ نہیں ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کو نہ ملے، یہ کام ضرور ہوگا اور انشاء اللہ ضرور ہوکر رہے گا۔ فلسطین فلسطینی عوام کو مل کر رہے گا لہذا مسئلہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس قسم کی فکر کا تصور غلط ہے۔ آج صہیونیوں اور ان کے حامیوں ’امریکہ ان کا سب سے بڑا اور اہم حامی ہے‘ کا مکر و فریب یہ ہے کہ وہ صلح کے خوبصورت اور حسین نام سے استفادہ کرتے ہیں: صلح کیجیئے، یہ کیسی باتیں ہیں۔؟ جی ہاں، صلح ایک اچھی چیز ہے لیکن صلح کہاں اور کس سے۔؟
کوئی شخص آپ کے گھر میں داخل ہوجائے۔ طاقت کے زور پر آپ کا دروازہ توڑ دے اور آپ کو مارے پیٹے، آپ کے بال بچوں کی توہین کرے اور چلا جائے اور پھر یہ کہے کہ کیوں ادھر ادھر اس کی شکایت کرتے ہو اور مسلسل لڑائی جھگڑا کرتے ہو، آؤ ہم صلح کرلیں، کیا یہ صلح ہوگی۔؟ یہ صلح ہے کہ آپ کو آپ کے گھر سے باہر نکا دیا جائے اور اگر آپ کے گھر پر قبضہ کرنے والے کے خلاف آواز اٹھائیں یا قیام کریں تو اس وقت دشمن کے حامی آئیں اور صلح کرائیں جب کہ غاصب دشمن آپ کے گھر میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے گھر میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے آپ کے خلاف ہر ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔ اب بھی اگر اس کا ہاتھ پہنچے تو کمی نہیں چھوڑے گا۔ اسرائیل کی ذات میں حملہ اور تشدد کا عنصر ہے۔ اسرائیلی حکومت کی ماہیت اور طبیعت میں حملہ، خونخواری اور تشدد موجود ہے۔ اسرائیلی حکومت کی بنیاد اور داغ بیل تشدد، فسادات اور طاقت کے زور پر ڈالی گئی ہے، اسی بنیاد پر وہ آگئے بڑھ رہی ہے اور اس کے بغیر اس کی پیش رفت ممکن نہیں تھی اور آئندہ بھی ممکن نہیں ہوگی۔ کہتے ہیں کہ اس حکومت کے ساتھ صلح کریں۔ کیسی صلح۔؟ اگر وہ اپنے حق میں قناعت کریں ’’یعنی وہ گھر جو فلسطین کے نام سے ہے وہ فلسطینی عوام کے حوالے کردیں اور اپنے کام میں مشغول ہوجائیں یا فلسطینی حکومت سے اجازت لیں اور کہیں کہ ہم میں سے بعض کو یا سب کو یہاں رہنے کی اجازت دے دیں‘‘۔ تو کسی کو انکے ساتھ جنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، جنگ یہ ہے کہ انہوں نے طاقت کے زور پر دوسروں کے گھر پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے گھر والوں کو گھر سے باہر نکال دیا ہے اور اب بھی ان پر ظلم و تشدد کو روا رکھے ہوئے ہیں۔ علاقائی ممالک پر ظلم کرتے ہیں اور سب کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں لہذا وہ صلح کو بھی بعد والے حملے کا مقدمہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ صلح برقرار ہوجائے تاکہ یہ صلح ان کے آئندہ حملے کے لئے مقدمہ قرار پا سکے۔
مسئلہ فلسطین کا یہ جھوٹ اور فریب پر مشتمل راہ حل اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتا۔ مسئلہ فلسطین کا راہ حل صرف یہ ہے کہ فلسطین کے اصلی عوام (نہ غاصب اور قابض مہاجرین) خواہ وہ فلسطین میں مقیم ہوں یا فلسطین سے باہر ہوں وہ خود اپنے ملک کا حکومتی ڈھانچہ بنائیں اور اگر جمہوریت کے دعوے داروں کا یہ دعوٰی سچ ہے کہ وہ کسی ملت کی رائے کا احترام کرتے ہیں تو پھر ملت فلسطین بھی ایک ملت ہے لہذا اسے اپنی سرنوشت تعین کرنے کا حق ہے اور وہ جو اسرائیل کے نام پر غاصب حکومت تشکیل دی گئی ہے اسے اس سرزمین پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ وہ جھوٹ، فریب اور ظالم طاقتوں کے بل بوتے پر معرض وجود میں آئی تھی لہذا فلسطینی عوام سے اسے تسلیم کرنے کا مطالبہ بالکل غلط ہوگا۔ اگر جہان اسلام میں سے کوئی بھی اس غلطی کا ارتکاب کرے اور اس ظالم و قابض حکومت کو تسلیم کرلے تو ایک تو اس نے اپنے لئے ننگ و عار کو مول لیا ہے اسکے علاوہ اس کا یہ کام بے فائدہ بھی ہے کیونکہ اس غاصب حکومت کو دوام نہیں ہے۔ صہیونیوں کا خیال ہے کہ وہ فلسطین پر قابض اور مسلط ہیں اور ہمیشہ کے لئے فلسطین ان سے متعلق رہے گا، نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے کہ بلکہ فلسطین کی سرنوشت یہ ہے کہ وہ ایک نہ ایک دن آزادی حاصل کرے گا کیونکہ ملت فلسطین نے اس راہ میں قربانیاں دی ہیں۔ مسلمان اقوام اور اسلامی حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ فلسطین کی آزادی تک پہنچنے میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے جد و جہد کریں تاکہ ملت فلسطین جلد از جلد اپنی آرزو تک پہنچ سکے۔
فلسطین مسئلہ کا بہترین حل موجود ہے اور وہ راہ حل یہ ہے کہ دنیا کا بیدار اور باشعور طبقہ اور وہ تمام لوگ جو آج کی دنیا میں رائج مفاہیم پر ایمان رکھتے ہیں وہ مجبور ہیں کہ اس بات کو قبول کریں۔ یہ وہ راہ حل ہے جو کو ہم نے پہلے پیش کیا تھا اور ہماری اسلامی حکومت کے ذمہ دار افراد نے عالمی اداروں میں بھی اسے بارہا بیان کیا ہے اور آج بھی ہم اس پر تاکید کریں گے کہ خود فلسطینی عوام سے رائے لی جائے اور ان تمام فسلطنیوں کو کہ جو اپنے وطن لوٹ کر آنا چاہتے ہیں ان سب سے رائے لی جائے وہ فلسطینی جو لبنان، اردن، کویت، مصر اور دوسرے عرب ممالک میں مہاجرت کی زندگی گزار رہے ہیں یہ سب فلسطینی واپس آئیں ہم یہ نہیں چاہتے کہ کسی کو زبردستی واپس لایا جائے اور وہ لوگ جو اسرائیل کی جعلی حکومت بننے سے پہلے یعنی پہلے سے فلسطین میں موجود تھے خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی اور خواہ یہودی ہو ان سب سے رائے لی جائے اور عام ریفرنڈم کے ذریعے فلسطین کا حکومتی نظام متعین کیا جائے یہ جمہوریت ہے۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جمہوریت سب دنیا کے لئے تو اچھی ہو لیکن فلسطینی عوام کے لئے جمہوریت اچھی نہ ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام دنیا کی عوام کو تو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اپنی سرنوشت خود متعین کریں لیکن فلسطینی عوام اس حق سے محروم ہو۔ کوئی شخص بھی اس بات میں شک و تردید نہیں کرسکتا کہ فلسطین پر آج جو حکومت قابض ہے وہ طاقت اور فریب کے بل بوتے پر بنائی گئی ہے وہ زبردستی ٹھونسی جانے والی حکومت ہے لہذا فلسطینی عوام جمع ہوکر ریفرنڈم کے ذریعے حکومتی ڈھانچہ کا انتخاب کریں کس طرح کا وہ نظام حکومت چاہتے ہیں اس پر اپنا ووٹ دیں۔ جب حکومت بن جائے تو پھر ان لوگوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے جو کہ بعد میں فلسطین میں داخل ہوئے ہیں جو بھی فیصلہ ہو اسے عملی جامہ پہنایا جائے اگر فیصلہ انکے حق میں ہوتا ہے تو وہ رہیں اگر فیصلہ انکے خلاف ہوتا ہے تو وہ جائیں یہ ہے عوام کی رائے کا احترام۔ یہ ہے جمہوریت اور یہی انسانی حقوق کی پاسداری کا تقاضا ہے جو موجودہ دنیا کے رائج قوانین کے عین مطابق ہے۔ یہ ہے راہ حل اور اسی راہ حل کا نفاذ ہونا چاہیئے۔
غاصب حکومت تو اس راہ حل کو خوش اسلوبی سے قبول نہیں کرے گی۔ لہذا تمام عرب ممالک، اسلامی ممالک، دنیا کی مسلمان اقوام، بالخصوص ملت فلسطین اور عالمی ادارے ان سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس راہ حل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جد و جہد کریں۔ بعض لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ راہ حل خواب و خیال پر مبنی ہے اور اسے عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے۔ نہیں ایسا کرنا بالکل ممکن ہے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ ممالک جو برسوں تک سابقہ سوویت یونین کا حصہ رہے وہ آج مستقل اور آزاد ہوگئے اور قفقاز کے بعض ممالک تو سوویت یونین کی تشکیل سے برسوں پہلے روس کے زیر تسلط تھے لیکن آزاد ہوگئے۔ آج قزاقستان، آذربائیجان، گرجستان وغیرہ سب آزاد ہوگئے ہیں پس ایسا ہونا ممکن ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی انوکھا کام ہو البتہ اس کے لئے عزم و ارادہ، جرات اور دلیری کی ضرورت ہے۔ اب یہ بہادری کا جوہر کون دکھائے۔؟ اقوام یا حکومتیں۔ اقوام تو بہادر ہیں اور انہوں نے اپنی بہادری کے مختلف مواقع پر ثابت کیا ہے کہ وہ تیار ہیں۔
میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اپنا حق پلٹانے کے سلسلے میں فلسطینی قوم کی کامیابی اسلامی جمہوریہ کے قیام کے سلسلے میں ایرانی قوم کی کامیابی سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اُس دن جدوجہد کے دوران ہمارے پاس وسائل کی اس سے کہیں زیادہ قلت تھی جو آج غزہ اور مغربی کنارے میں آپ کے عوام کے پاس ہیں لیکن یہ واقعہ بہر صورت رونما ہوا، یہ ناممکن کامیابی حاصل ہوئی اور انجام کو پہنچی۔ جدوجہد کے تسلسل کی برکت سے، خدا پر توکل کی برکت سے، ہمارے امام بزرگوار کی پرعزم اور مضبوط قیادت کی برکت سے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ ممکن ہے کہ یہ صورتحال پیش آئے کہ کچھ لوگ میدان پر نظر ڈالیں، امریکی طاقت کو دیکھیں، صہیونیوں کو حاصل مغرب کی پشت پناہی کو دیکھیں، امریکہ اور دنیا کے دوسرے نقاط میں صہیونیوں کے نیٹ ورک کی طاقت کو دیکھیں اور ان کی تشہیری طاقت کو دیکھیں اور سمجھیں کہ فلسطین کا فلسطینیوں کے پاس پلٹانا ایک ناممکن امر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نہیں، یہ ناممکن امر ممکن ہوجائے گا۔ بشرطیکہ استقامت اور پامردی ہو۔ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے “فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ” (۲۸) استقامت لازمی ہے، پامردی اور جم کر رہنا لازمی ہے، راستے پر مداومت سے چلتے رہنا لازمی ہے۔
ترتیب و تزئین: جاوید عباس رضوی