افغانستان ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات دارالحکومت کابل میں کئی بم دھماکوں کی صورت میں سامنے آئے۔ ان شدید دھماکوں نے پورے ملک پر غم و اندوہ کی فضا طاری کر دی ہے اور مختلف ذرائع ابلاغ میں پہلی سرخی کے طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ کابل کے مغربی حصے میں ہونے والے یہ بم دھماکے، دہشت گردانہ نوعیت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ تین دیگر اہم خصوصیات بھی رکھتے تھے: ایک یہ کہ یہ دھماکے کابل کے شیعہ اکثریتی علاقے میں انجام پائے ہیں، دوسرا ان بم دھماکوں سے "سید الشہداء" گرلز اسکول کی طالبات کو نشانہ بنایا گیا ہے اور تیسری خصوصیت یہ کہ یہ دہشت گردانہ اقدام رمضان کے مبارک مہینے اور عیدالفطر کے قریب واقع ہوئے ہیں۔
مندرجہ بالا تین خصوصیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دہشت گردانہ بم حملوں میں ملوث عناصر افغانستان میں فرقہ وارانہ اختلافات اور جنگ کو ہوا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق ان بم دھماکوں کے نتیجے میں 58 افراد شہید جبکہ 150 سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں سید الشہداء گرلز اسکول کی 50 طالبات شامل ہیں۔ زخمیوں کی کثیر تعداد کے پیش نظر شہداء کی تعداد میں اضافہ ہونے کا امکان پایا جاتا ہے۔ اسی طرح کافی زیادہ تعداد میں طالبات لاپتہ بھی ہیں۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والی طالبات کے اہلخانہ اپنے عزیزوں کی تلاش میں جگہ جگہ گھوم رہے ہیں۔ کبھی جائے حادثہ پر بچے کھچے ملبے میں تلاش کرتے ہیں اور کبھی اسپتالوں کے سرد خانوں میں اپنے عزیزوں کو ڈھونڈتے ہیں۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ تین دھماکے ہوئے ہیں۔ ایک دھماکہ بارود سے بھری ٹویوٹا کرولا میں ہوا جبکہ دو دیگر دھماکے ان مائنوں سے ہوئے جو طالبات کے راستے میں نصب کی گئی تھیں۔ افغان حکومت کی پوری کوشش ہے کہ ان دھماکوں کی ذمہ داری طالبان پر ڈال دی جائے۔ افغان صدر اشرف غنی نے اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "طالبان نے غیر قانونی جنگ میں شدت پیدا کر کے اور شدت پسندانہ اقدامات کے ذریعے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ نہ صرف موجودہ بحران کو پرامن طریقے سے بنیادی طور پر حل کرنے کے خواہاں نہیں بلکہ حالات کو مزید پیچیدہ بنا کر امن کیلئے فراہم کردہ موقع ضائع کر دینا چاہتے ہیں۔"
لیکن طالبان نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان بم دھماکوں سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں انجام پانے والے اس دہشت گردانہ واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اس میں طالبان کے ملوث نہ ہونے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گردانہ اقدام تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی کارستانی ہے۔ اس کے باوجود افغان حکومت اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے اور ان بم دھماکوں میں طالبان کے ہی ملوث ہونے پر اصرار کر رہی ہے۔ افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا: "حالیہ بم دھماکے ماضی میں انجام پانے والے بم دھماکوں سے ملتے جلتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ طالبان نے انجام دیے ہیں۔" یاد رہے گذشتہ ہفتے بھی افغانستان کی ولایت لوگر میں ایسے ہی بم دھماکوں میں 27 افراد شہید اور 110 زخمی ہو گئے تھے۔
افغان حکومت اور طالبان کے مختلف موقف سے ہٹ کر دیکھیں تو یہ نکتہ انتہائی اہم نظر آتا ہے کہ ابھی تک کسی گروہ نے ان دہشت گردانہ بم حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کے ساتھ ہی بعض خفیہ قوتیں گذشتہ بیس برس سے فوجی جارحیت اور اندرونی جھگڑوں کے شکار اس ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کو ناممکن ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ایک طرف یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن افغانستان میں اپنے فوجی قبضے کو جلد از جلد ختم کر دینا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف امریکی حکام خاص مقاصد کے تحت ایسے بیان دیتے نظر آتے ہیں کہ غیر ملکی افواج کی عدم موجودگی میں افغانستان جنگ اور بحران کی لپیٹ میں آ جائے گا۔
امریکہ کے وزیر خارجہ اینتھونی بلینکن نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ہر قسم کا تصور ممکن ہے۔ دوسری طرف انٹرا افغان امن مذاکرات ایک بار پھر تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس تعطل کی بنیادی وجہ امریکہ کی وعدہ خلافیاں ہیں۔ امریکہ نے فروری 2020ء میں طالبان کے ساتھ انجام پانے والے معاہدے پر پوری طرح عملدرآمد نہیں کیا۔ اس معاہدے کی روشنی میں یہ طے پایا تھا کہ افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج مئی 2020ء تک ملک چھوڑ کر چلی جائیں گی جبکہ امریکہ نے حال ہی میں فوجی انخلاء کا آغاز کیا ہے۔ طالبان نے بھی اعلان کیا ہے کہ امریکہ کی وعدہ خلافی کے پیش نظر وہ ہر قسم کی مسلح کاروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ لیکن یوں دکھائی دیتا ہے کہ بعض خفیہ ہاتھ افغانستان میں دوبارہ بدامنی کا بازار گرم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تحریر: علی احمدی