حالیہ غزہ جنگ میں رونما ہونے والے تین نئے حقائق

Rate this item
(0 votes)
حالیہ غزہ جنگ میں رونما ہونے والے تین نئے حقائق

 
گذشتہ چند دنوں سے غزہ کی پٹی میں شروع ہونے والی جنگ، 2014ء کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور غزہ میں مقیم فلسطینی گروہوں کے درمیان شدید ترین فوجی جھڑپ قرار دی جا رہی ہے۔ اس جنگ میں رونما ہونے والے واقعات کا بغور جائزہ لینے سے چند ایسے نئے حقائق کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ یہ نئے حقائق صرف غاصب صہیونی رژیم کے مقابلے میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی فوجی طاقت میں خاطرخواہ اضافے تک ہی محدود نہیں ہیں۔ اگرچہ یہ حقیقت اپنی جگہ پر بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے لیکن بعض ایسے نئے حقائق ابھر کر سامنے آئے ہیں جنہیں ماضی کی نسبت بے مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے 73 ویں سال ان نئے حقائق کا ظہور خاص اہمیت رکھتا ہے۔
 
1)۔ پہلی حقیقت امریکی کانگریس سے غاصب صہیونی رژیم کے خلاف مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں اٹھنے والی آواز پر مشتمل ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے غاصب صہیونی رژیم کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت کے خلاف خود امریکہ کے اندر سے صدائے احتجاج بلند ہونا خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اگرچہ معروف تھیوریشن نوآم چامسکی یا ریاست ویرمانٹ کے سینیٹر برنی سینڈرز جیسی اہم شخصیات کی جانب سے اٹھنی والی یہ آواز نئی بات نہیں لیکن کیپیٹل ہل (امریکہ میں قانون سازی کی علامت) میں کانگریس کے ایک رکن کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق کیلئے اٹھنے والی آواز بے سابقہ ہے۔ رشیدہ طلیب اور ایلہان عمر ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ کانگریس کی دو رکن خواتین ہیں جنہوں نے پہلی بار امریکی ایوان نمائندگان میں فلسطینی عوام کے حق میں آواز اٹھائی ہے اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو "دہشت گردی" قرار دیا ہے۔
 
2)۔ دوسری حقیقت مقبوضہ فلسطین کے اندر مقیم فلسطینی مسلمان شہریوں کا قیام اور شدت پسند صہیونیوں کے خلاف ان کے صف آرا ہونے پر مبنی ہے۔ اس ٹکراو کی شدت کے باعث غاصب صہیونی رژیم تاریخ میں پہلی بار "اللاد" نامی شہر میں ایمرجنسی نافذ کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ اس شہر کے میئر نے اعتراف کیا ہے کہ یہ شہر کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اور شہر کے گلی کوچے فلسطینی مسلمانوں اور یہودی آبادکاروں کے درمیان سول وار یا خانہ جنگی کی صورتحال کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ اس نے صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے اس شہر میں فوج تعینات کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ غاصب صہیونی رژیم اب تک مقبوضہ فلسطین میں ان مسلمان شہریوں کی موجودگی کو یہودی آبادکاروں اور مقامی عرب باشندوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے پرچار کیلئے استعمال کرتی آئی ہے۔
 
اس میں خاص بات یہ ہے کہ ان مسلمان عرب باشندوں کا غاصب صہیونی رژیم اور مسلمان فلسطینی شہریوں میں ٹکراو کے آغاز میں کوئی کردار نہیں تھا لیکن جب اس ٹکراو کی شدت میں اضافہ ہوا تو یہ باشندے بھی ان کی حمایت میں گھروں سے باہر نکل آئے۔ مقبوضہ فلسطین کے مختلف شہروں جیسے اللاد، عکا اور حیفا میں مقامی باشندوں اور یہودی آبادکاروں کے درمیان جھڑپوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان شہروں کے مسلمان فلسطینی باشندے اب محض تماشائی نہیں رہے اور غاصب صہیونی رژیم کے خلاف کھل کر میدان میں اتر آئے ہیں۔ اس صورتحال سے مجبور ہو کر صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو اعلانیہ طور پر اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا کہ "وہ دو محاذون پر لڑنے پر مجبور ہو چکا ہے۔" یہ غاصب صہیونی رژیم اور اسلامی مزاحمتی محاذ کے درمیان ٹکراو میں اہم اور تاریخی تبدیلی قرار دی جا رہی ہے جس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔
 
3)۔ حالیہ غزہ جنگ کے دوران رونما ہونے والی تیسری نئی حقیقت غاصب صہیونی رژیم کی ایک عدالت کی جانب سے مشرقی بیت المقدس میں واقع محلے "شیخ جراح" کے انخلاء کا حکم جاری کئے جانے پر مشتمل ہے۔ درحقیقت حالیہ ٹکراو اور جھڑپوں کی بنیادی وجہ ہی یہ عدالتی حکم اور اس کی بنیاد پر صہیونی فورسز کی جانب سے شیخ جراح محلے پر دھاوا بول دینا قرار پایا ہے۔ صہیونی فورسز نے اس محلے سے مسلمان فلسطینی شہریوں کو نکال باہر کرنے کیلئے گرینڈ آپریشن کا آغاز کیا جس کے خلاف مقامی افراد اٹھ کھڑے ہوئے اور مزاحمت کا مظاہرہ کرنے لگے۔ جب اس ٹکراو میں اچھی خاصی شدت پیدا ہوئی تو غزہ میں موجود اسلامی مزاحمتی گروہوں نے بھی مقامی فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے غاصب صہیونی رژیم کو یہ آپریشن روک دینے کا الٹی میٹم دے دیا۔
 
مقامی فلسطینی شہریوں کو جبری طور پر اپنے آبائی گھر چھوڑ کر جلاوطنی پر مجبور کرنا گذشتہ 73 برس سے غاصب صہیونی رژیم کا معمول بن چکا ہے۔ اگرچہ صہیونی رژیم کا یہ اقدام ہمیشہ مسلمان فلسطینی شہریوں کی جانب سے مزاحمت سے روبرو رہا ہے لیکن حالیہ مزاحمت اس قدر بے مثال اور شدید ہے کہ غاصب صہیونی رژیم اس کے سامنے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ صہیونی رژیم کے اٹارنی جنرل نے انٹیلی جنس اور فوجی اداروں کی خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر عدالت سے اس حکم کو ملتوی کر دینے کی درخواست کی ہے۔ اگرچہ اس حکم کو صرف ملتوی کیا گیا ہے لیکن صہیونی رژیم کی اس حد تک پسپائی بھی فلسطین کی تاریخ میں بے مثال ہے۔ یہ اسلامی مزاحمت کی بہت بڑی فتح ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ غاصب صہیونی رژیم صرف مزاحمت اور مسلح جدوجہد کی زبان سمجھتی ہے۔

تحریر: محمود حکیمی

Read 455 times