جنوبی لبنان سے غاصب صیہونیوں کی ذلت آمیز شکست کی 21ویں سالگرہ کی مناسبت سے لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے قوم سے خطاب کیا ہے۔ سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس وقت لبنانی مزاحمتی محاذ اپنی تاریخ کی بہترین حالت میں ہے، اطلاع دی کہ رمضان المبارک کے بعد سے ان کے منظر عام پر نہ آنے کی وجہ ان کی علالت تھی۔ سید مقاومت نے اپنے خطاب کے آغاز میں لبنان سے اسرائیل کی تاریخی شکست کی سالگرہ پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ غزہ میں پیش آنے والے واقعات کے آغاز سے لے کر حالیہ حوادث تک میں لبنان اور اس سے باہر موجود بھائیوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے تمام حالات کا جائزہ لے رہا تھا جبکہ اب ہم ماہ مئی میں 2 عظیم کامیابیوں؛ 25 مئی 2000ء کے روز لبنان میں اور 21 مئی 2021ء کے روز غزہ میں (غاصب صیہونی رژیم کی شکست کے حوالے سے) حاصل ہونے والی فتوحات پر جشن منایا کریں گے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے جنوبی لبنان کی آزادی میں موثر کردار ادا کرنے پر شہدائے مزاحمت کے سردار جنرل قاسم سلیمانی سمیت لبنانی، فلسطینی و عرب ممالک کے شہداء کو خراج تحسین پیش کیا اور تاکید کی کہ فلسطینی مزاحمتی محاذ کے کمانڈروں نے غزہ کے حالیہ معرکے میں خوب جوہر دکھائے ہیں۔
سربراہ حزب اللہ لبنان نے سال 2000ء میں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف حاصل ہونے والی تاریخی فتح کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ سال 2000ء میں لبنانی قوم و مزاحمتی محاذ کی جانب سے حاصل کی جانے والی کامیابی درحقیقت لبنانی عوامی تحریکوں اور قومی جماعتوں کی فداکاری کا نتیجہ تھا جبکہ سال 2000ء کی فتح کا اہم ترین محرک اس وقت کے لبنانی صدر "امیل لحود"، چیئرمین پارلیمنٹ "نبیہ بری" اور وزیراعظم "سلیم الحص" سمیت لبنانی حکام کا سرکاری و دوٹوک موقف تھا۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ سال 2000ء کی فتح ایک تاریخی و تزویراتی کامیابی تھی اور یہی وجہ ہے کہ دشمن صیہونی حکام نے اس تزویراتی شکست کے برے نتائج
پر خبردار بھی کیا ہے، جبکہ اس کامیابی نے مسئلۂ فلسطین اور اس کے متعلقہ معرکوں کے حوالے سے دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمن فریقوں کو بھی مختلف تزویراتی رستوں پر گامزن کر دیا ہے۔
عرب چینل المنار کے مطابق اپنے خطاب میں سید حسن نصراللہ نے تاکید کی ہے کہ قدس کو لاحق خطرہ فلسطینی مزاحمتی محاذ کی عسکری کمان کی جانب سے تاریخی و دوٹوک موقف کے اختیار کئے جانے کا محرک بنا ہے جبکہ غزہ کی حالیہ جنگ کی اصلی وجہ صیہونی دشمن کی حماقت، اس کی جانب سے مزاحمتی محاذ کو کمزور سمجھنا اور (صیہونی) دشمن کے حساب کتاب کی غلطی تھی۔ سید مقاومت نے زور دیتے ہوئے کہا کہ غاصب صیہونی رژیم کا خیال تھا کہ قدس کو یہودی بنائے جانے کے اس کے گھناؤنے منصوبے پر سامنے آمنے والا ردعمل "بیان" سے بڑھ کر نہیں ہوگا جبکہ دشمن کے حساب کتاب کی سب سے اہم غلطی یہ تھی کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ غزہ اس قسم کا کوئی تاریخی فیصلہ بھی اٹھا سکتا ہے، درحالیکہ غزہ نے اپنے اس فیصلے اور قدس میں انجام پانے والے قابض صیہونی رژیم کے گھناؤنے اقدامات پر اپنے دندان شکن جواب سے دوست و دشمن دونوں کو ہی چونکا کر رکھ دیا ہے!
حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ غزہ نے جو کچھ حالیہ معرکے میں پیش کیا ہے، وہ نہ صرف ایک تاریخی قدم بلکہ اسرائیلی دشمن کے ساتھ جہاد کی پوری تاریخ میں ایک منفرد اقدام تھا، جبکہ "سیف القدس" مزاحمتی آپریشن کے سبب آنے والی اہم ترین تاریخی تبدیلی یہ تھی کہ غزہ نے صرف اور صرف قدس اور اس کے رہائشیوں کی خاطر اس جنگ میں قدم رکھا تھا، نہ کہ خود غزہ کے دفاع کے لئے! انہوں نے کہا کہ غزہ کے رہائشی اور اس کا مزاحمتی محاذ قدس و مسجد اقصیٰ کے دفاع میں اپنی جان نثار کر دینے کو تیار تھے اور یہی وجہ ہے کہ "سیف القدس" مزاحمتی آپریشن نے ایک ایسی حقیقت کو عیاں کر دیا ہے کہ جسے غاصب صیہونیوں کو سمجھ لینا اور اس کی بنیاد پر اپنے حساب کتاب کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیئے۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے
کہ قدس، اس کے مقدس مقامات اور مسجد اقصیٰ کے خلاف جارحیت، ان کی کسی بھی دوسری شرارت سے مختلف ہے، جبکہ (قدس شریف اور اس کے مقدس مقامات کے خلاف) اس جارحیت کا تعلق صرف غزہ تک ہی محدود نہیں رہے گا، کیونکہ اگر قدس شریف میں اسلامی و عیسائی مقدس مقامات کو خطرہ لاحق ہوا تو کوئی ریڈلائن باقی نہیں رہے گی!
سید مقاومت نے اپنے خطاب کے دوران غاصب صیہونیوں کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی کہ قدس اور مسجد اقصیٰ کے خلاف جارحیت کا مطلب پورے خطے کی جنگ ہے! سید حسن نصراللہ نے کہا کہ جب اسرائیلی دشمن نے جان لیا کہ وہ اس دفاعی مساوات سے روبرو ہے تو پھر وہ یہ بھی جان لے گا کہ مستقبل میں اٹھایا جانے والا ہر اقدام اس (غیر قانونی) رژیم کے زوال پر ہی منتج ہوگا۔ سربراہ حزب اللہ لبنان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سیف القدس مزاحمتی آپریشن کے دوران پوری دنیا نے یہ محسوس کیا ہے کہ وہ ایک ایسی "متحد فلسطینی قوم" کے روبرو کھڑی ہے، جو پوری کی پوری واحد ہدف کے حصول لئے جدوجہد میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیف القدس مزاحمتی آپریشن نے نہ صرف عالمی سطح پر مسئلۂ فلسطین کو دوبارہ اجاگر کرکے پوری دنیا کے میڈیا کو اس کی کوریج پر مجبور کر دیا ہے بلکہ اس معرکے نے یہ ثابت کرتے ہوئے کہ مقبوضہ سرزمینوں کو واپس لینے کا واحد رستہ "مزاحمت" ہے، مزاحمتی ثقافت میں نئی روح بھی پھونک دی ہے۔
سید مقاومت نے سیف القدس مزاحمتی آپریشن کے اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ سیف القدس آپریشن کے بعد ہم یہ بات بآسانی کہہ سکتے ہیں کہ "صدی کی ڈیل" زوال پذیر ہوچکی ہے جبکہ اس مزاحمتی آپریشن کا ایک اور نتیجہ اسرائیل کے اپارتھائیڈ نظام حکومت سمیت اس کا گھناؤنا چہرہ عیاں کرنا بھی ہے، جبکہ خطے کی رائے عامہ کو حقیقی دشمن کی جانب موڑ دینا اس مزاحمتی آپریشن کا ایک اور اہم نتیجہ ہے۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ سیف القدس مزاحمتی آپریشن کے سبب پورے فلسطینی دفاعی نظام میں غزہ کی پٹی کی اہمیت دوبالا ہوگئی ہے، جو اس معرکے کے باعث وجود
میں آنے والی ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جبکہ غزہ میں مزاحمتی محاذ کو حاصل ہونے والی حالیہ کامیابیوں میں سے ایک؛ پہلے سے اعلان کردہ وقت پر بڑی تعداد میں میزائل فائر کرنے کی صلاحیت ہے، درحالیکہ حالیہ معرکہ؛ تعداد، کیفیت اور میزائلوں کے رینج کے اعتبار سے مزاحمتی محاذ کی مختلف نئی صلاحیتوں کو بھی منظر عام پر لے آیا ہے۔
سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں تاکید کی کہ فلسطین میں موجود کوئی ایک صیہونی بھی جب غیر محفوظ ہونے کا احساس کرے گا تو اس کا کم از کم کام یہ ہوگا کہ وہ فلسطین کو ترک کر دے، جبکہ سیف القدس آپریشن کے اہم ترین نتائج میں سے ایک غاصب صیہونی رژیم کے امن و امان کا درہم برہم ہو جانا ہے، جو ایک تاریخی و اہم فوجی کامیابی ہے۔ سید مقاومت نے کہا کہ ہم ایک ایسی رژیم کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جو سر تا پا مکمل طور پر مسلح اور اس انتہائی کم رقبے کی حامل "غزہ کی پٹی" کے مقابلے میں انتہائی طاقتور فضائیہ کی حامل ہے، جو گذشتہ 15 سال خود اسی رژیم کے مکمل محاصرے میں موجود ہے جبکہ غزہ میں ایک ایسا مزاحمتی محاذ موجود ہے، جس نے اپنا اسلحہ یا تو خفیہ طریقے سے وہاں پہنچایا ہے یا مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) سے خریدا اور یا خود بنایا ہے.. لہذا ہم کوئی 2 بڑے ممالک کے بارے بات نہیں کر رہے، ہم غزہ کے مزاحمتی محاذ کے مقابلے میں "سر تا پا مسلح رژیم" کے بارے بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ معرکے نے مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کے بارے "غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے پرامن مقام" کے سابقہ تصور کو بھی توڑ ڈالا ہے جبکہ اس مزاحمتی آپریشن کے دوسرے نتائج میں ایک اور اہم نتیجہ؛ سال 1948ء کی مقبوضہ سرزمینوں کے رہائشیوں کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جدوجہد میں بھرپور شرکت تھی، درحالیکہ (صیہونی) دشمن اس امر کو "اپنے وجود کے لئے خطرہ" گردانتا ہے۔ سید مقاومت نے تاکید کی کہ اس معرکے کا ایک اور اہم نتیجہ مزاحمتی محاذ کی جانب سے فائر کئے جانے والے راکٹوں کے مقابلے میں غاصب صیہونی رژیم کی کھلی شکست
تھی، جو اس غاصب رژیم کی انٹیلیجنس ناکامی کو ظاہر کرتی ہے، درحالیکہ اگر "آئرن ڈوم" کہلانے والا دفاعی نظام کامیاب ہو جاتا تو (بنجمن) نیتن یاہو ہر جگہ اس پر فخر کرتا نظر آتا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اس مزاحمتی آپریشن کی ایک اور کامیابی مزاحمتی محاذ کے ان میزائلوں کے زرادخانوں کو نشانہ بنانے میں اسرائیلی ناکامی ہے، جو تاحال فائر نہیں کئے گئے جبکہ غزہ اور 1948ء کی مقبوضہ سرزمینوں کے ردعمل کا قبل از وقت اندازہ لگانے میں صیہونی شکست بھی اس آپریشن کی ایک اور اہم کامیابی ہے۔
انہوں نے تاکید کی کہ حالیہ معرکے میں غاصب صیہونی رژیم کی شکست کی واضح ترین علامت غزہ کے خلاف صیہونی دشمن کا زمینی جنگ میں داخل نہ ہونا ہے، جس سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ خود کو "خطے کی طاقتور ترین" کہلوانے والی فوج "زمینی جنگ" سے بری طرح ہراساں ہے جبکہ یہ کوئی عام نہیں بلکہ ایک تزویراتی شکست ہے، تاہم اس سے بڑھ کر یہ کہ دشمن اپنی فتح کے بارے کوئی تصور دینے کی طاقت بھی نہیں رکھتا۔ بعد ازاں خطاب کے دوران انہوں نے سیف القدس مزاحمتی آپریشن سے حاصل ہونے والے دوسرے نتائج کے حوالے سے اس جنگ میں کسی بھی تزویراتی ہدف کے حصول، مزاحمتی محاذ کی اصلی عسکری کمان کے مقامات کی تشخیص، (حماس کے عسکری ونگ کے کمانڈر) برادر محمد الضیف سمیت مزاحمتی کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ اور مزاحمتی محاذ کی حقیقی طاقت کا اندازہ لگانے میں غاصب صیہونی رژیم کی کھلی شکست کا ذکر کیا۔
سربراہ حزب اللہ لبنان نے اپنے خطاب کے دوران اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آج لبنانی مزاحمتی محاذ فوجی سازوسامان اور اپنی تیاری کے حوالے سے تاریخ کے کسی بھی دوسرے وقت کی نسبت سب سے زیادہ تیار ہے۔ سید حسن نصراللہ نے صیہونیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لبنان کے بارے حساب کتاب میں ایسی کوئی غلطی نہ کرنا، جو تم نے غزہ میں کی ہے اور جان لو کہ ہماری صورتحال یکسر مختلف ہے اور اس وقت لبنانی مزاحمتی محاذ انتہائی طاقتور ہوچکا ہے۔ انہوں نے شہید قدس "محمد طحان" کو یاد کرتے
ہوئے کہا کہ یہ شہید آج کی اس نسل کا نمائندہ ہے، جو بغیر کسی اسلحے کے تمام سرحدیں و دیواریں عبور کرنے کو بالکل تیار ہے جبکہ مزاحمتی محاذ ہی فلسطینی قوم کی کامیابی کا اصلی راز ہے۔
سید حسن نصراللہ نے مسئلۂ فلسطین کو حاصل عراقی عوامی حمایت، عراق کے موجودہ حالات اور مرجع عالیقدر آیت اللہ سید علی سیستانی کے بیان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے ہر کونے میں موجود ہر دوست و دشمن کو چاہیئے کہ وہ مسئلۂ فلسطین کے بارے آیت اللہ سید علی سیستانی کے بیان پر توجہ دے۔ سید مقاومت نے مسئلۂ فلسطین کے بارے یمنی عوام کی حمایت کی جانب بھی اشارہ کیا اور کہا کہ فلسطینی عوام کے ساتھ یمنی قوم اور ان کے رہبر "سید عبدالملک الحوثی" کی یکجہتی کے تصور سے شکرانے کے آنسو بہہ نکلتے ہیں جبکہ یمنی قوم مزاحمتی محاذ کے لئے ایک بڑی قوت کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب میں یہ بات سنتا ہوں کہ جناب عبدالملک جو خود اپنے پورے ملک کے ہمراہ سخت ترین سرحدی محاصرے میں ہیں، یہ کہتے ہیں کہ ہم فلسطین کے ساتھ اپنے تمام وسائل تقسیم کرنے پر تیار ہیں، تو میں واقعا بہت متاثر ہو جاتا ہوں۔
سید مقاومت نے اپنی آنکھوں میں امڈے آنسو پیتے ہوئے کہا کہ میں انہیں کہتا ہوں کہ آپ تو خود سخت ترین سرحدی محاصرے میں ہیں! انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں زور دیتے ہوئے کہا کہ صیہونی رژیم کا زوال انتہائی نزدیک اور اس کا خاتمہ حتمی ہے جبکہ اس حوالے سے صرف اور صرف وقت اہم ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ آج کا اہم ترین موضوع خطے کے مختلف مقامات پر وجود میں آنے والی وہ مزاحمت، استقامت اور قیام ہے کہ جس نے آج فلسطین میں اہم کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران پائیدار و استوار ہے جبکہ جیسا کہ "جان بولٹن" چاہتا تھا، ویسا بالکل نہیں ہوا.. جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اب جنگ کی دھمکی بھی نہیں دی جا سکتی، درحالیکہ وہ اس وقت عائد پابندیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے صدارتی انتخابات میں مصروف ہے۔