افغانستان میں ایک بار پھر طالبان اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑتے نظر آرہے ہیں، کئی اضلاع میں داخل ہونے کے مناظر، عام لوگوں کیساتھ سرکاری فورسز کے لوگوں کو ہتھیار ڈالتے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے اپنے سفید جھنڈے جن پہ کلمہ لکھا گیا ہے، کو لہراتے فتوحات کے منظر سامنے لائے جا رہے ہیں۔ یہ فتوحات کے منظر دکھانا جنگوں میں پروپیگنڈا ویڈیوز اور میڈیا کا استعمال ہی تو ہے۔ ایسے ہی کچھ مناظر سرکاری افواج کی طرف سے بھی ایک ویڈیو میں دکھائے گئے ہیں کہ سینکڑوں طالبان اپنے ہتھیار ڈالتے اپنے پرچم کو رکھ کر افغانستان کا قومی پرچم اٹھاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تو جنگوں میں چلتا رہتا ہے، فتوحات کے دعوے اور دشمن کی شکست کے اعلانات دونوں اطراف سے جاری رہتے ہیں، اس لئے کہ جنگوں میں سچ چھپ جاتا ہے اور پروپیگنڈا سامنے آجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے ملک کے بڑے حصے پر اپنا قبضہ کر لیا ہے اور وہ مسلسل آگے بڑھ بھی رہے ہیں۔ اب یہ خطرہ سب ہی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ِافغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال خانہ جنگی کا الارم ہے، جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس وقت ہے۔
طالبان کے پچھلے ایک ڈیڑھ ہفتہ میں پچاس اضلاع سمیت تاجکستان۔افغان بارڈر اور ضلع کرم سے متصل پاک۔افغان بارڈر پر قبضے سے اس بات میں اب وزن بھی پیدا ہوگیا ہے۔ طالبان نے مختلف افغان اضلاع کو روندتے ہوئے لگ بھگ چوبیس گھنٹوں میں چوبیس اضلاع پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور جوز جان کے قچہ ضلع میں بھی افغان فورسز نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، یوں جنرل رشید دوستم کا آبائی شہر بغیر گولی چلائے طالبان کے قبضے میں چلا گیا، اب یہ کوئی اتفاق تو نہی ہوسکتا۔ اس لئے کہ رشید دوستم وار لارڈ اور افغانستان کا ایک پرانا منجھا ہوا کھلاڑی ہے، مگر قطر اور طالبان کے ساتھ ایک مبینہ ڈیل کی وجہ سے تاجک اور ازبک علاقوں میں جہاں پہلے طالبان کا جانا ممکن نہیں تھا، اب طالبان کو ڈھیل دے دی گئی ہے اور بادغیث، کندوز اور تاجکستان کی سرحدی چوکی تک طالبان نہایت آسانی سے قبضہ کرتے جا رہے ہیں اور لوگ جوق در جوق طالبان کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بعض قبائلی سرداروں اور صوبوں کے گورنر بھی طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور خرید و فروخت کے معاملات قطر میں طے پائے ہیں۔ اب جبکہ طالبان کا تقریباً آدھے افغانستان پر کنٹرول ہے، یہ علاقے طالبان نے لڑتے ہوئے اور اضلاع کو روندتے ہوئے قبضہ میں لئے ہیں۔ ادھر طالبان ترجمان سہیل شاہین امریکہ کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں، طالبان نے پاکستان اور ترکی کو خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان ممالک کابل ہوائی اڈے یا دوسری کسی ڈیل سے دور رہیں اور ہمارے (طالبان) کے ساتھ مل کر افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام میں مدد کریں۔ یاد رہے کہ چند دن قبل یہ خبر میڈیا پر نشر ہوئی تھی کہ امریکہ نے کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی کا ٹھیکہ ترکی کو دیا ہے، جبکہ ترکی نے اس معاملے میں پاکستان سے مدد لینے کا کہا تھا۔
صورتحال کی اس سنگینی میں افغانستان کی موجودہ سرکار جس میں صدر عبدالغنی اور عبد اللہ عبد اللہ بھی شامل ہیں، دو روز سے امریکہ کے دورے پر پہنچے ہیں، جہاں وہ اعلیٰ امریکی عہدیداران سمیت صدر امریکہ جو بائیڈن سے ملے ہیں۔ وہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ تو جلد ہی سامنے آجائے گا، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ فیصلے میدان میں ہی ہونگے اور میدان اس وقت طالبان کے ہاتھ میں جا چکا ہے، بیس سال تک امریکہ افغانستان میں اپنے دو ہزار سے زیادہ فوجی مروا کر اور اتنا بھاری مالی نقصان کرکے اگر بھاگ رہا ہے تو اسے یہ سمجھ آچکی ہے کہ اب مزید نقصان نہیں کروانا، ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سب امریکہ کی اپنی پلاننگ کا حصہ ہے کہ افغانستان کو آگ و خون کی وادی میں دھکیل کر خود باہر ہو جائے، اس مقصد کیلئے اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور طالبان سے مذاکرات کا ڈرامہ رچایا۔
انہیں قطر میں دفتر کی اجازت دی، ان کے اہم ترین افراد سے پابندیاں اٹھائیں اور انہیں دنیا بھر میں گھومنے کا اجازت نامہ دیا۔ اس دوران طالبان نے بھرپور سفارت کاری سے روس، ترکی، چین، ایران، پاکستان، ہندوستان سے اچھے تعلقات بنا لئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ایک اتحادی حکومت کے ہوتے ہوئے قطر میں طالبان کے دفتر کو ان کے سفارت خانہ کی حیثیت دی گئی تھی، اسی طرح امریکہ نے دوحہ مذاکرات اور ڈیل کے نتیجہ میں ہزاروں طالبان کو جیلوں سے رہا کروایا اور ان کے حوصلوں کو تقویت بخشی، اب بھی جب طالبان مختلف اضلاع میں وارد ہو رہے ہیں تو ان کا ٹارگٹ نہ امریکی بیس ہیں نہ امریکی فوجی قافلے یا مراکز۔ جس سے واضح پیغام ملتا ہے کہ امریکہ کو طالبان کی موجودہ پیش رفت کی مکمل مدد و حمایت حاصل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کی سیاسی قیادت کو اپنے پاس بلا کر کیا نسخہ کیمیا دیتا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک انٹرویو میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر کہا ہے کہ اگر طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو ہم اپنی سرحدیں بند کر دیں گے اور افغانستان میں صرف منتخب حکومت جسے عوام کی حمایت حاصل ہوگی، کو ہی تسلیم کریں گے یاد رہے کہ ماضی میں جب طالبان کابل پر 1995ء میں قابض ہوئے تھے تو سب سے پہلے پاکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا، جس نے پختونوں کے علاوہ دیگر اکائیوں کے خلاف مظالم کی ایک نئی تاریخ لکھی تھی، جسے اہل مزار شریف، بامیان، بلخ اور شمالی علاقوں کے عوام کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب کی بار ایک طرف تو طالبان جن علاقوں میں پیش رفت کر رہے ہیں، وہاں عوام کو اپنا بظاہر اچھا طرز عمل دکھا رہے ہیں اور سرکاری افواج کے اہلکاروں کو ہتھیار ڈالنے پر عام معافی دے رہے ہیں، جبکہ اس کے باوجود بہت سے علاقوں میں عوامی سطح پر لشکر تشکیل پا رہے ہیں اور طالبان سے مقابلے اپنے شہر ان کے حوالے نہ دینے کیلئے جنگی حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے، بلکہ تخار، بلخ، مزار شریف اور دیگر ایریاز میں طالبان کو مزاحمت کے ذریعے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا۔
ان ایریاز میں سب سے زیادہ اہل تشیع کی آبادیاں ہیں، جو ہزارہ قبائل پر مشتمل ہیں، کچھ عرصہ پہلے انہی ہزارہ قبائل نے داعش کے پے در پے حملوں سے تنگ آکر ہتھیار اٹھا لئے تھے تو موجودہ عبد الغنی حکومت نے ان پر امریکی جہازوں کے ذریعے بمبارمنٹ کی تھی اور ہتھیار اٹھانے والے کمانڈرز کو گرفتار کیا تھا، آج یہی کمانڈرز اور عوام افغانستان کی عزت، حمیت اور غیرت کی علامت کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں اور صدر غنی اپنے آقا امریکہ کی گود میں جا بیٹھا ہے، دیکھیں اسے وہاں سے کیا ہڈی ملتی ہے۔ طالبان اگرچہ بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ اہل تشیع سمیت سب افغان ہیں اور شیعہ علاقوں میں شیعوں کو ہی کمان دی جائیگی اور سب کی جان و مال محفوط ہوگا، مگر جن لوگوں کے رہبر کو مذاکرات کیلئے بلا کر انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا، جن کے گھروں کو تہس نہس کیا گیا، جن کی بیٹیوں کو کنیزی میں لیا گیا، جن کے اموال کو جلا دیا گیا، جن کی عزتوں کو پائمال کیا گیا، ان کو آپ پر کیسے اعتماد ہوگا۔ یہ لوگ تو آپ کا سفاک چہرہ ماضی میں اور پھر شام و عراق میں دیکھ چکے ہیں، ان کیلئے تو مزاحمت ہی عزت کا راستہ ہے، جسے انہوں نے چن لیا ہے، ان کے سامنے اب عراق کی مثال ہے، ان کے سامنے شام کی مثال ہے، جہاں عوام مزاحمت سے ہی ملک و ریاست کو بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔افغانستان میں ایک بار پھر طالبان اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑتے نظر آرہے ہیں، کئی اضلاع میں داخل ہونے کے مناظر، عام لوگوں کیساتھ سرکاری فورسز کے لوگوں کو ہتھیار ڈالتے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے اپنے سفید جھنڈے جن پہ کلمہ لکھا گیا ہے، کو لہراتے فتوحات کے منظر سامنے لائے جا رہے ہیں۔ یہ فتوحات کے منظر دکھانا جنگوں میں پروپیگنڈا ویڈیوز اور میڈیا کا استعمال ہی تو ہے۔ ایسے ہی کچھ مناظر سرکاری افواج کی طرف سے بھی ایک ویڈیو میں دکھائے گئے ہیں کہ سینکڑوں طالبان اپنے ہتھیار ڈالتے اپنے پرچم کو رکھ کر افغانستان کا قومی پرچم اٹھاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تو جنگوں میں چلتا رہتا ہے، فتوحات کے دعوے اور دشمن کی شکست کے اعلانات دونوں اطراف سے جاری رہتے ہیں، اس لئے کہ جنگوں میں سچ چھپ جاتا ہے اور پروپیگنڈا سامنے آجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے ملک کے بڑے حصے پر اپنا قبضہ کر لیا ہے اور وہ مسلسل آگے بڑھ بھی رہے ہیں۔ اب یہ خطرہ سب ہی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ِافغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال خانہ جنگی کا الارم ہے، جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس وقت ہے۔
طالبان کے پچھلے ایک ڈیڑھ ہفتہ میں پچاس اضلاع سمیت تاجکستان۔افغان بارڈر اور ضلع کرم سے متصل پاک۔افغان بارڈر پر قبضے سے اس بات میں اب وزن بھی پیدا ہوگیا ہے۔ طالبان نے مختلف افغان اضلاع کو روندتے ہوئے لگ بھگ چوبیس گھنٹوں میں چوبیس اضلاع پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور جوز جان کے قچہ ضلع میں بھی افغان فورسز نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، یوں جنرل رشید دوستم کا آبائی شہر بغیر گولی چلائے طالبان کے قبضے میں چلا گیا، اب یہ کوئی اتفاق تو نہی ہوسکتا۔ اس لئے کہ رشید دوستم وار لارڈ اور افغانستان کا ایک پرانا منجھا ہوا کھلاڑی ہے، مگر قطر اور طالبان کے ساتھ ایک مبینہ ڈیل کی وجہ سے تاجک اور ازبک علاقوں میں جہاں پہلے طالبان کا جانا ممکن نہیں تھا، اب طالبان کو ڈھیل دے دی گئی ہے اور بادغیث، کندوز اور تاجکستان کی سرحدی چوکی تک طالبان نہایت آسانی سے قبضہ کرتے جا رہے ہیں اور لوگ جوق در جوق طالبان کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بعض قبائلی سرداروں اور صوبوں کے گورنر بھی طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور خرید و فروخت کے معاملات قطر میں طے پائے ہیں۔ اب جبکہ طالبان کا تقریباً آدھے افغانستان پر کنٹرول ہے، یہ علاقے طالبان نے لڑتے ہوئے اور اضلاع کو روندتے ہوئے قبضہ میں لئے ہیں۔ ادھر طالبان ترجمان سہیل شاہین امریکہ کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں، طالبان نے پاکستان اور ترکی کو خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان ممالک کابل ہوائی اڈے یا دوسری کسی ڈیل سے دور رہیں اور ہمارے (طالبان) کے ساتھ مل کر افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام میں مدد کریں۔ یاد رہے کہ چند دن قبل یہ خبر میڈیا پر نشر ہوئی تھی کہ امریکہ نے کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی کا ٹھیکہ ترکی کو دیا ہے، جبکہ ترکی نے اس معاملے میں پاکستان سے مدد لینے کا کہا تھا۔
صورتحال کی اس سنگینی میں افغانستان کی موجودہ سرکار جس میں صدر عبدالغنی اور عبد اللہ عبد اللہ بھی شامل ہیں، دو روز سے امریکہ کے دورے پر پہنچے ہیں، جہاں وہ اعلیٰ امریکی عہدیداران سمیت صدر امریکہ جو بائیڈن سے ملے ہیں۔ وہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ تو جلد ہی سامنے آجائے گا، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ فیصلے میدان میں ہی ہونگے اور میدان اس وقت طالبان کے ہاتھ میں جا چکا ہے، بیس سال تک امریکہ افغانستان میں اپنے دو ہزار سے زیادہ فوجی مروا کر اور اتنا بھاری مالی نقصان کرکے اگر بھاگ رہا ہے تو اسے یہ سمجھ آچکی ہے کہ اب مزید نقصان نہیں کروانا، ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سب امریکہ کی اپنی پلاننگ کا حصہ ہے کہ افغانستان کو آگ و خون کی وادی میں دھکیل کر خود باہر ہو جائے، اس مقصد کیلئے اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور طالبان سے مذاکرات کا ڈرامہ رچایا۔
انہیں قطر میں دفتر کی اجازت دی، ان کے اہم ترین افراد سے پابندیاں اٹھائیں اور انہیں دنیا بھر میں گھومنے کا اجازت نامہ دیا۔ اس دوران طالبان نے بھرپور سفارت کاری سے روس، ترکی، چین، ایران، پاکستان، ہندوستان سے اچھے تعلقات بنا لئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ایک اتحادی حکومت کے ہوتے ہوئے قطر میں طالبان کے دفتر کو ان کے سفارت خانہ کی حیثیت دی گئی تھی، اسی طرح امریکہ نے دوحہ مذاکرات اور ڈیل کے نتیجہ میں ہزاروں طالبان کو جیلوں سے رہا کروایا اور ان کے حوصلوں کو تقویت بخشی، اب بھی جب طالبان مختلف اضلاع میں وارد ہو رہے ہیں تو ان کا ٹارگٹ نہ امریکی بیس ہیں نہ امریکی فوجی قافلے یا مراکز۔ جس سے واضح پیغام ملتا ہے کہ امریکہ کو طالبان کی موجودہ پیش رفت کی مکمل مدد و حمایت حاصل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کی سیاسی قیادت کو اپنے پاس بلا کر کیا نسخہ کیمیا دیتا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک انٹرویو میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر کہا ہے کہ اگر طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو ہم اپنی سرحدیں بند کر دیں گے اور افغانستان میں صرف منتخب حکومت جسے عوام کی حمایت حاصل ہوگی، کو ہی تسلیم کریں گے یاد رہے کہ ماضی میں جب طالبان کابل پر 1995ء میں قابض ہوئے تھے تو سب سے پہلے پاکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا، جس نے پختونوں کے علاوہ دیگر اکائیوں کے خلاف مظالم کی ایک نئی تاریخ لکھی تھی، جسے اہل مزار شریف، بامیان، بلخ اور شمالی علاقوں کے عوام کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب کی بار ایک طرف تو طالبان جن علاقوں میں پیش رفت کر رہے ہیں، وہاں عوام کو اپنا بظاہر اچھا طرز عمل دکھا رہے ہیں اور سرکاری افواج کے اہلکاروں کو ہتھیار ڈالنے پر عام معافی دے رہے ہیں، جبکہ اس کے باوجود بہت سے علاقوں میں عوامی سطح پر لشکر تشکیل پا رہے ہیں اور طالبان سے مقابلے اپنے شہر ان کے حوالے نہ دینے کیلئے جنگی حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے، بلکہ تخار، بلخ، مزار شریف اور دیگر ایریاز میں طالبان کو مزاحمت کے ذریعے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا۔
ان ایریاز میں سب سے زیادہ اہل تشیع کی آبادیاں ہیں، جو ہزارہ قبائل پر مشتمل ہیں، کچھ عرصہ پہلے انہی ہزارہ قبائل نے داعش کے پے در پے حملوں سے تنگ آکر ہتھیار اٹھا لئے تھے تو موجودہ عبد الغنی حکومت نے ان پر امریکی جہازوں کے ذریعے بمبارمنٹ کی تھی اور ہتھیار اٹھانے والے کمانڈرز کو گرفتار کیا تھا، آج یہی کمانڈرز اور عوام افغانستان کی عزت، حمیت اور غیرت کی علامت کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں اور صدر غنی اپنے آقا امریکہ کی گود میں جا بیٹھا ہے، دیکھیں اسے وہاں سے کیا ہڈی ملتی ہے۔ طالبان اگرچہ بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ اہل تشیع سمیت سب افغان ہیں اور شیعہ علاقوں میں شیعوں کو ہی کمان دی جائیگی اور سب کی جان و مال محفوط ہوگا، مگر جن لوگوں کے رہبر کو مذاکرات کیلئے بلا کر انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا، جن کے گھروں کو تہس نہس کیا گیا، جن کی بیٹیوں کو کنیزی میں لیا گیا، جن کے اموال کو جلا دیا گیا، جن کی عزتوں کو پائمال کیا گیا، ان کو آپ پر کیسے اعتماد ہوگا۔ یہ لوگ تو آپ کا سفاک چہرہ ماضی میں اور پھر شام و عراق میں دیکھ چکے ہیں، ان کیلئے تو مزاحمت ہی عزت کا راستہ ہے، جسے انہوں نے چن لیا ہے، ان کے سامنے اب عراق کی مثال ہے، ان کے سامنے شام کی مثال ہے، جہاں عوام مزاحمت سے ہی ملک و ریاست کو بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
تحریر: ارشاد حسین ناصر