سرزمین مقدس حجاز میں آل سعود رژیم کی لادینیت پھیلانے کی کوشش

Rate this item
(0 votes)
سرزمین مقدس حجاز میں آل سعود رژیم کی لادینیت پھیلانے کی کوشش

سرزمین مقدس حجاز میں آل سعود رژیم منصوبہ بندی کے تحت انتہائی منظم انداز میں عریانی، فحاشی، لہو و لعب کی محافل اور غیر اسلامی اقدامات کے ذریعے لادینیت پھیلانے میں مصروف ہے۔ سعودی حکومت نے اس مقصد کیلئے باقاعدہ ایک ادارہ تشکیل دیا ہے جس کا نام General Entertainment Authority رکھا گیا ہے۔ اس ادارے کی بنیاد 2016ء میں رکھی گئی ہے۔ حال ہی میں اس ادارے نے سعودی شہریوں کو اپنے بقول یہ خوشخبری سنائی ہے کہ وہ "سالانہ جشن" میں شرکت کیلئے تیار ہو جائیں۔ یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب حج کے انعقاد پر شدید محدودیت اور پابندی عائد ہوئے یہ دوسرا سال ہے۔ کرونا وائرس کے باعث پھیل جانے والی وبا کے پیش نظر حج کا انعقاد انتہائی محدود کر دیا گیا تھا اور یہ محدودیت اب تک جاری ہے۔
 
حال ہی میں سعودی عرب کی وزارت حج نے اعلان کیا ہے کہ اس سال بھی گذشتہ برس کی طرح حج کی اجازت صرف سعودی شہریوں کو دی جائے گی اور دیگر ممالک کے شہریوں کو حج کیلئے سفر کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دوسری طرف جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی نے وسیع پیمانے پر ناچ گانے کی محفلوں کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے تمام سعودی شہریوں کو اس میں شرکت کیلئے تیار رہنے کی تاکید کی ہے۔ یہ ادارہ ہر سال ملک کے مختلف شہروں میں ناچ گانے کی محافل کا انعقاد کرتا ہے جس میں بیرون ملک سے گلوکار، فنکار اور کھلاڑی بلائے جاتے ہیں۔ یہ ایسے افراد ہیں جنہیں celebrities کے نام سے جانا جاتا ہے۔ "موسمات الریاض" نامی ٹویٹر پیج پر ایک ویڈیو شائع کی گئی ہے جس میں اعلان کیا گیا ہے کہ بہت جلد "موسم الریاض" نامی جشن کا آغاز کر دیا جائے گا۔
 
یاد رہے جشن کے عنوان سے منعقد ہونے والی ان محافل میں بہت زیادہ تعداد میں افراد شریک ہوتے ہیں جبکہ ان میں کرونا وائرس کی روک تھام کیلئے اعلان شدہ ایس او پیز کی پابندی بھی نہیں کی جاتی۔ 2016ء میں جب یہ محافل "موسم الریاض"، "موسم جدہ" اور "موسم الشرقیہ" کے نام سے منعقد ہوئیں اور ان میں مرد و خواتین کی شرکت، ناچ گانا اور حتی شراب خواری انجام پائی تو سعودی عرب کے مختلف حلقوں نے ان پر شدید تنقید کا اظہار کیا۔ یہ محفلیں سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے اعلان کردہ وژن 2030ء کے تحت منعقد ہوتی ہیں۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ ان محفلوں کے انعقاد کا بنیادی مقصد سعودی معاشرے میں "لادینیت" پھیلانا ہے۔ یہ محفلیں ایسے ملک میں منعقد کی جا رہی ہیں جس کے حکمران خود کو خادم الحرمین کہلواتے ہیں۔
 
مئی 2019ء میں "موسم جدہ" کے عنوان سے منعقد ہونے والی ایسی ہی ایک محفل میں امریکی پاپ سنگر "نیکی میناژ" نے بھی شرکت کی جس کے باعث اس اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی وقت کی بات ہے کہ سعودی عرب کی اعلی سطحی علماء کونسل کے تین اراکین کے اعتراضات مختلف ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن گئے تھے۔ ان علماء نے ایسی محافل کے انعقاد کو "منظم اخلاقی بے راہروی" قرار دیا تھا۔ شیخ عبداللہ المطلق جو اس اعلی سطحی کونسل کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ سلطنتی دربار میں مشیر بھی تھے نے ایسی محافل کو سعودی معاشرے کی روایات کے خلاف قرار دیتے ہوئے انہیں شیطان کی کارستانیاں کہا تھا۔ حال ہی میں ریاض میں ایک کنسرٹ منعقد کیا گیا جس میں لبنان کے پاپ سنگر نجوی کرم نے شرکت کی۔
 
اس سال اہم بات یہ ہے کہ "موسم ریاض" کے عنوان سے اسلام مخالف اقدامات اور سرگرمیوں پر مشتمل یہ محفل عین اسی وقت منعقد کی جا رہی ہے جو حج کا موقع ہے۔ اسی طرح حکومتی سطح پر اس کی بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف حج کے خلاف پابندیاں برقرار ہیں۔ اس وقت سعودی عرب میں یہ سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ کیا کرونا صرف حج کو محدود کرنے کا بہانہ ہے؟ کیا ویکسین لگوانے کی شرط پر دیگر ممالک کے شہریوں کو بھی حج کی اجازت دینا ممکن نہ تھا؟ کیوں حج پر تو پابندی عائد ہے جبکہ ناچ گانے اور شراب خواری کی محفلیں آزادی سے منعقد ہو رہی ہیں؟ "سعودی لیکس" نامی ویب سائٹ کے مطابق سعودی حکومت ان اقدامات کے ذریعے تین اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے۔
 
پہلا مقصد اسلامی دنیا میں حرمین شریفین کے تقدس کا خاتمہ ہے۔ دوسرا مقصد مسلمانان عالم کو یہ پیغام دینا ہے کہ حج کا انعقاد سعودی حکومت کے اختیار میں ہے اور وہ جب چاہے اس کے انعقاد کی اجازت دے اور جب چاہے نہ دے۔ آل سعود رژیم کے ان اقدامات کا تیسرا مقصد اپنے مغربی آقاوں، امریکہ، برطانیہ اور غاصب صہیونی رژیم کی رضامندی حاصل کرنا ہے۔ سعودی لیکس کے مطابق جوان سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے برسراقتدار آتے ہی ملک میں لادینیت پھیلانے کیلئے منصوبہ بندی کے تحت اقدامات اور سرگرمیاں انجام دینا شروع کر دی تھیں۔ ان سرگرمیوں میں شراب کی خریدوفروخت میں آسانی پیدا کرنا، ناچ گانے کی محافل کا انعقاد، امریکی گلوکاروں اور فنکاروں کو دعوت اور دوسری طرف سینکڑوں علماء دین اور امام مساجد کو قید کر دینا شامل ہیں۔

تحریر: علی احمدی

Read 623 times