مستقبل کا افغانستان

Rate this item
(0 votes)
مستقبل کا افغانستان


طالبان کی تیز رفتار پیشقدمی جاری ہے۔ طالبان اندازوں سے کہیں زیادہ سرعت سے کابل کے قریب پہنچ جائیں گے۔ غزنی اور قندھار کے بعد مزار شریف بھی طالبان کے ہاتھوں سقوط کر گیا ہے۔ افغانستان کے شہر مزار شریف کے مکمل سقوط کر جانے کی خـبریں کنفرم ہوچکی ہیں۔ طالبان کے ذرائع نے دعویٰ کیا کہ صوبہ بلخ کا صدر مقام مزار شریف مکمل طور پر ان کے قبضے میں آگیا ہے۔ مزار شریف شمالی افغانستان کا اہم ترین شہر شمار ہوتا ہے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے شہر میں داخل ہونے کے بعد مزار شریف جیل میں موجود تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا ہے۔ مزار شریف ماضی میں طالبان سے فتح نہیں ہوسکا تھا۔ اس بار طالبان نے جنگی حکمت  عملی تبدیل کرکے اس اہم شھر پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کمانڈر عطاء محمد نور اور مارشل دوستم جو مزار شریف کا دفاع کر رہے تھے، حیرتان نامی علاقے کی جانب کوچ کرگئے ہیں، بعض خبروں میں ان کے تاجکستان فرار کی خبریں موصول ہوئي ہیں۔

طالبان کا پورے افغانستان پر قبضہ اب نوشتہ دیوار ہے۔ ایران سمیت تمام ہمسایہ ممالک ان کو تسلیم کرنے پر تیار  نظر آرہے ہیں۔ ایران کی پہلی ترجیح افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء ہے۔ امریکہ پینترا بدل کر پلان بی پر عمل درآمد ضرور کرے گا۔ افغانستان میں ناامنی جاری رہے گی اور یہی امریکی خواہش ہے۔ امریکہ کا بی پلان کیا ہے، اس ہر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ فوجی انخلاء کے باوجود ایک فور اسٹار امریکی جرنیل کی تعیناتی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ مزار شریف پر قبضے سے پہلے طالبان گروہ، شبرغان، نیمروز، قندوز، سرپل، سمنگان، پلخمری، تخار اور فراہ پر قبضہ کرچکا ہے جبکہ غزنی، ہلمند، قندھار اور ہرات پر بھی طالبان کا تسلط ہے۔ ادھر امریکی ذرائع ابلاغ دارالحکومت کابل پر قبضے کی بات کر رہے ہیں۔

روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ  افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کا قبضہ سی آئی اے کی پیش گوئی سے پہلے ممکن دکھائی دے رہا ہے۔ اخبار کے مطابق سی آئی اے نے پیش گوئی کی تھی کہ امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد چھے ماہ سے ایک سال کے اندر طالبان کابل میں داخل ہوسکتے ہیں، لیکن اب ایک انٹیلی جینس افسر نے صاف صاف کہا ہے کہ ہر چیز غلط راستے پر جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ ادھر صدر جو بائیڈن نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہا ہے کہ ہم نے بیس سال کے دوران ٹریلینز ڈالر افغانستان پر خرچ کیے ہیں اور اب افغانیوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے اور اپنے ملک کے لیے خود جنگ کریں۔ افغانستان کے عوامی اور سیاسی رہنماء ملک کی موجودہ صورتحال کو امریکہ اور طالبان کے درمیان خفیہ معاہدے کا نتیجہ قرار  دے رہے ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری دوہزار بیس میں ہونے والے معاہدے کے تحت امریکی فوجی افغانستان سے نکلنا شروع ہوگئے ہیں، یہ عمل گیارہ ستمبر سے پہلے مکمل ہو جائے گا۔ امریکی فوجیوں کے انخلا کے ساتھ ہی طالبان نے افغانستان میں حملے تیز کر دیئے تھے اور  اس وقت ملک کے اکثر علاقوں پر قبضہ کرچکے ہیں۔ چین، روس ایران اور پاکستان طالبان کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ ادھر افغان صدر اقتدار سے الگ ہونے کے لئے جو شرط عائد کر رہے ہیں، طالبان اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اشرف غنی انتخابات یا موجودہ آئین کے اندر رہ کر شرکت اقتدار کی بات کرتے ہیں جبکہ طالبان موجودہ افغان آئین کو سرے سے تسلیم نہیں کرتے اور امارت اسلامی کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔

پاکستان کی طرف سے یہ کہنا کہ کابل پر طاقت کے ذریعے اقتدار میں آنے والے کو قبول نہیں کیا جائیگا، ایک واضح اشارہ ہے کہ طالبان مختلف گروہوں کو ملا کر اقتدار میں آئے۔ طالبان کی حکمت عملی کے پیچھے اسلام آباد کے بالواسطہ مشورے شامل ہیں اور طالبان کابل کے مکمل محاصرے کے بعد مختلف گروہوں کو ملا کر شرکت اقتدار کا ایک جامع منصوبہ سامنے لائے گا، جس کو پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک حتی عالمی ادارے بھی تسلیم کر لیں گے۔ طالبان کے عمل و کردار میں ماضی کی نسبت کیا تبدیلی آسکتی ہے، وہ ان کی مرکزی قیادت میں تو قابل درک ہے، لیکن مقامی قدامت پسند اور روایتی ملاں مرکزی قیادت سے کتنے ہم آہنگ ہوسکتے ہیں، اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ امریکہ بہادر، چین، روس اور ایران کو ایسا افغانستان ہرگز نہیں دے سکتا، جو امریکی مفادات کی بجائے ان ممالک کے لئے سودمند ثابت ہو۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

Read 420 times