افغانستان سے امریکی فرار کے ممکنہ اثرات

Rate this item
(0 votes)
افغانستان سے امریکی فرار کے ممکنہ اثرات
افغانستان سے امریکہ کا اچانک اور ایمرجنسی حالت میں فوجی انخلاء جو انخلاء سے زیادہ فرار سے شباہت رکھتا ہے آج کل مختلف ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بن چکا ہے۔ حال ہی میں معروف امریکی میگزین Washington examiner نے اپنے فرنٹ پیج پر بہت دلچسپ کارٹون شائع کیا ہے۔ اس میں امریکی صدر جو بائیڈن کو دکھایا گیا ہے جو امریکی فوجی ہیلی کاپٹر کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جبکہ ان کے پیچھے بڑی تعداد میں طالبان جنگجو دوڑ رہے ہیں۔ جو بائیڈن کے چہرے پر خوف اور وحشت کے آثار واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ واشنگٹن ایگزیمینر نامی مجلے نے اپنے اس کارٹون کا یہ عنوان انتخاب کیا ہے کہ: "بائیڈن بھاگ رہا ہے۔" اس کارٹون سے امریکہ کے سیاسی حلقوں میں افغانستان سے فوجی انخلاء کے بارے میں تشویش صاف ظاہر ہے۔
 
امریکہ کے سیاسی حلقوں میں افغانستان سے فوجی انخلاء کے بارے میں تشویش اور اضطراب کی پہلے سے توقع کی جا رہی تھی۔ خاص طور پر موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے ریپبلکن سیاسی حریف ڈیموکریٹ حکومت کو کمزور کرنے کیلئے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ دوسری طرف ایسا دکھائی دیتا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کے اثرات کا دائرہ صرف امریکہ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے نتائج اور اثرات ظاہر ہوں گے۔ امریکہ نے جب 7 اکتوبر 2001ء کے دن نائن الیون کے بہانے افغانستان پر فوجی چڑھائی شروع کی تو اس کے قریبی اتحادی برطانیہ میں ٹونی بلیئر وزارت عظمی کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے بھی حال ہی میں افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء پر اظہار خیال کیا ہے۔
 
برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اپنے کالم میں افغانستان سے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے فوجی انخلاء کو "فرار" قرار دے کر اسے احمقانہ، خطرناک اور غیر ضروری جانا ہے۔ اسی طرح انہوں نے امریکہ اور نیٹو کے اس اقدام کی مذمت بھی کی ہے۔ اگرچہ گذشتہ کافی عرصے سے ٹونی بلیئر کسی حکومتی عہدے پر فائز نہیں رہے لیکن افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے برطانوی پارلیمنٹ کے حالیہ خصوصی اجلاس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ کے اراکین پارلیمنٹ بھی موجودہ صورتحال سے راضی نہیں ہیں اور ان میں سے بعض نے تو امریکی صدر جو بائیڈن کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ کنزرویٹو پارٹی سے وابستہ برطانوی رکن پارلیمنٹ ٹام ٹوگینڈتھ، جو سابقہ فوجی افسر بھی ہیں ان میں سے ایک تھے۔
 
ٹام ٹوگینڈتھ نے امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی کارکردگی پر اعتراض کرنے کو "شرمناک" قرار دیا۔ اسی طرح لیبر پارٹی سے وابستہ برطانوی رکن پارلیمنٹ نے بھی اس بارے میں جو بائیڈن کے موقف کو "قابل مذمت اور غلط" قرار دیا۔ لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے سربراہ ایڈ ڈیوی نے بھی افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کو ایک بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ایک غلطی ہی نہیں بلکہ ایسی غلطی تھی جس سے بچنا ضروری تھا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ امریکی حکومت کے فیصلوں اور اقدامات کے بارے میں برطانوی سیاست دانوں اور حکومتی عہدیداروں کی جانب سے ایسے بیانات کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ خاص طور پر برطانیہ کے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے امریکی صدر پر اس قدر واضح اور شدید تنقید ایک انوکھا واقعہ ہے۔
 
چونکہ افغانستان پر فوجی جارحیت کے آغاز میں برطانیہ امریکہ کا اصلی اور بنیادی اتحادی تھا، لہذا برطانوی حکام اور سیاست دان امریکی حکومت سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ افغانستان سے فوجی انخلاء جیسے اہم فیصلے اور اقدام میں ضرور اسے اعتماد میں لے گا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے نہ صرف برطانوی حکمرانوں کو اس فیصلے سے آگاہ نہیں کیا بلکہ افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے 36 گھنٹے بعد تک برطانوی وزیراعظم بوریس جانسن کے ٹیلی فون کا جواب بھی نہیں دیا۔ برطانوی حکمرانوں کی جانب سے امریکہ سے شدید ناراضگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ درحقیقت ابھی یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ جو بائیڈن نے نہ صرف برطانوی حکام بلکہ کسی بھی یورپی اتحادی کو اپنے فیصلے میں شامل نہیں کیا اور یکطرفہ طور پر افغانستان سے فرار اختیار کیا ہے۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان سے امریکہ کی بوکھلاہٹ کی حالت میں فرار کے بعد نہ صرف اس کے مغربی اتحادی موقف کی حد تک شدید نالاں ہیں بلکہ مستقبل قریب میں ان کے عمل سے بھی امریکہ سے دوری ظاہر ہونا شروع ہو جائے گی۔ بروکینگز تھنک ٹینک میں سکیورٹی، اسٹریٹجی اور ٹیکنالوجی سنٹر کی اعلی سطحی رکن، فیڈریکا سائنی فاسانوٹی کا خیال ہے کہ جو بائیڈن کی موجودہ سیاست کے باعث اٹلی کے حکمران بڑی مشکل کا شکار ہو چکے ہیں اور اب ان کے پاس افغانستان میں ہلاک شدہ اٹلی فوجیوں کے اہلخانہ کو وضاحت پیش کرنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ لہذا مستقبل میں امریکہ مغربی ممالک کے ساتھ فوجی اتحاد تشکیل دے کر مشترکہ آپریشنز انجام دینے میں شدید مشکلات کا شکار ہو گا۔ اس کی بنیادی وجہ مغربی ممالک کا امریکہ پر ختم ہوتا اعتماد ہے۔
تحریر: سید رحیم نعمتی
 
 
 
Read 551 times