کیا طالبان پنج شیر پر قبضہ کر پائیں گے؟

Rate this item
(0 votes)
کیا طالبان پنج شیر پر قبضہ کر پائیں گے؟

افغانستان پر حکمرانی اور اپنے عروج کے دنوں میں بھی طالبان کو افغانستان کے شمالی صوبے پنج شیر سے دور رکھنے میں اہم کردار احمد مسعود کے والد احمد شاہ مسعود کا تھا۔ پنج شیر کا شمار افغانستان کے قدرے پر امن اور طالبان مخالف صوبوں میں ہوتا ہے، جو دارالحکومت کابل سے 130 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔ یہ احمد شاہ مسعود کا آبائی علاقہ بھی ہے جنہوں نے پہلے سوویت یونین اور بعد میں طالبان کے خلاف اپنے علاقے کا کامیاب دفاع کیا تھا۔ احمد شاہ مسعود ایک ممتاز افغان جنگجو کمانڈر رہے ہیں اور انہوں نے سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے بعد کی جنگ میں دوسرے افغان رہنماؤں کی طرح اس جنگ میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ہندوکش کی برف پوش پہاڑی چوٹیوں کے دامن میں واقع پنج شیر میں سوویت شکست کے آثار اب بھی موجود ہیں روسی فوج نے اس علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کئی بار فوج کشی کی مگر ہر بار اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

القاعدہ اور طالبان جنگجوں سے بیک وقت نمبرد آزما احمد شاہ مسعود نے اتنہائی کٹھن حالات میں بھی طالبان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ میں اس وقت تک مزاحمت کروں گا جب تک میرے پاس میرے سر جتنی جگہ باقی ہوگی۔ احمد شاہ مسعود کو 9 ستمبر 2011ء کو افغانستان کے صوبے پنج شیر میں 2 عرب حملہ آوروں نے بم حملے میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ حملہ آور صحافیوں کے بھیس میں احمد شاہ مسعود سے ملنے گئے تھے۔ طالبان جنگجوؤں کا خیال تھا کہ احمد شاہ مسعود کی موت کے بعد وہ افغانستان پر اپنے نامکمل قبضے کو مکمل کرلیں گے تاہم نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے باعث طالبان کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور امریکا شمالی اتحاد کے مدد سے کابل میں متبادل حکومت بنانے میں کامیاب ہوگیا اور پنج شیر احمد شاہ مسعود کے ہلاکت کے بعد بھی ناقابل تسخیر ہی رہا۔

احمد مسعود کا اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کا اعلان
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں جنگ ختم ہوگئی ہے تاہم پنج شیر میں موجود سابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح کا کہنا ہے کہ وہ اشرف غنی کی غیر موجودگی میں نگراں افغان صدر ہیں اور یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ طالبان کے دوبارہ کابل پر قبضے کے بعد آج بھی پنج شیر واحد صوبہ ہے جو طالبان کے کنٹرول سے باہر ہے اور وہاں پر احمد شاہ مسعود کے بیٹے اور ان کے سینئر ساتھی امراللہ صالح اس وقت طالبان کے خلاف ایک بار پھر مزاحمت کی تیاری کررہے ہیں۔ جہاں ایک طرف امرللہ صالح تمام طالبان مخالف دھڑوں کو مزاحمتی تحریک کا حصہ بننے کی دعوت دے رہے ہیں، وہیں احمد مسعود بیرونی سطح پر طالبان کے خلاف جنگ کے لئے اتحادی ڈھونڈنے کے لئے کوشاں ہے۔ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طالبان کے خلاف جنگ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے ایک حالیہ مضمون میں احمد مسعود کا کہنا تھا کہ اگر امریکی حکومت ان کو اسلحہ مہیا کرے تو وہ انتہا پسند طالبان کو پنج شیر پر قبضے سے روک سکتے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ میں اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے جنگجوؤں کے ہمراہ طالبان کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لئے تیار ہوں۔ احمد مسعود کا کہنا ہے کہ انہیں ہتھیاروں کی فراہمی کے علاوہ امریکی تعاون کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں مزید لکھا کہ امریکا کو افغان عوام کو طالبان کے رحم و کرم پر تنہا نہیں چھوڑنا چاہیئے بلکہ طالبان مخالف قوتوں کے ساتھ تعاون جاری رکھنا چاہیئے۔ طالبان اپنے حریفوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرچکے ہیں اور انسانی و خواتین کے حقوق کی ضمانت بھی دے رہے ہیں، تاہم طالبان کے ماضی کو دیکھتے ہوئے افغان عوام میں اس حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔

کیا طالبان اس مرتبہ پنج شیر پر قبضہ کر پائیں گے؟
نوے کی دہائی میں بھی جب طالبان نے افغانستان کے مختلف صوبوں پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت بھی وہ پنج شیر کا کنٹرول حاصل نہیں کر پائے تھے۔ احمد شاہ مسعود کی قیادت میں شمالی اتحاد نے پنج شیر میں طالبان کو اپنے قدم جمانے نہیں دیئے تھے۔ افغان اُمور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کہتے ہیں کہ کوہ ہندو کش کی بلند و بالا پہاڑیوں میں گھری وادیٔ پنج شیر اپنے محل و وقوع کی وجہ سے طالبان کی پہنچ سے دُور رہی ہے۔ اُن کے بقول یہ قدرتی طور پر ایک محفوظ علاقہ ہے جس کا ایک ہی راستہ کابل کی طرف نکلتا ہے جب کہ تین اطراف سے یہ ایک طرح سے بند ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کسی بھی حملہ آور کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بریگیڈیئر محمود شاہ کا کہنا تھا کہ احمد شاہ مسعود ایک پرعزم جنگجو تھا جس کے ساتھ کئی وفادار ساتھی طالبان کے ساتھ لڑتے رہے تھے۔ البتہ اُن کے بقول اب صورتِ حال مختلف ہے کیوں کہ احمد مسعود کے ساتھ جو جنگجو ہیں وہ اتنے پرعزم نہیں ہیں، لہذٰا طالبان نے پنج شیر کی جانب پیش قدمی کی صورت میں وہ اس علاقے پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں طالبان کے خلاف مزاحمت کے لئے احمد شاہ مسعود اور شمالی اتحاد کو ایران کا تعاون بھی حاصل رہا ہے۔ تاہم اب ایران بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے جس کے بعد احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود کے پاس بہت کم آپشنز باقی بچے ہیں۔

پنج شیر اب تک ناقابل تسخیر کیوں ہے؟
وادی پنج شير کو اس کا محل وقوع دفاعی اعتبار سے مضبوط بناتا ہے وادی تک رسائی صرف دريائے پنج شير کے ساتھ ايک تنگ راستے سے ممکن ہے۔ پنج شیر کی وادی مشہور ہندوکش پہاڑی سلسلے کے ساتھ واقع ہے جبکہ دریائے پنچ شیر افغانستان کے اہم دریاؤں میں سے ایک ہے۔ پنج شیر اوسطً سطح سمندر سے 2200 میٹر کی بلندی پر واقع ہے جبکہ اس کے بعض مقامات سطح سمندر سے 6 ہزار میٹر کی بلندی پر بھی ہیں۔ پنج شیر وادی میں زمرد کی کان کنی اور افغانستان کے لئے توانائی کا ایک بڑا مرکز بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ پنج شیر ہمیشہ ایک اہم شاہراہ رہا ہے، تقریباً 100 کلومیٹر لمبا یہ ہندوکش کے دو راستوں کی طرف جاتا ہے۔

خاوک پاس شمالی میدانی علاقوں کی طرف جاتا ہے اور انجمن پاس بدخشان میں داخل ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم اور تیمور کی فوجوں نے انہیں استعمال کیا تھا۔ یہ خطہ دریاؤں اور ندیوں کے ایک پیچیدہ نظام پر مشتمل ہے جو گھاٹیوں سے گزرتا ہے لہذا وہ جنگ کے دوران ایک بہترین قدرتی پناہ گاہ کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ علاقہ ایک قلعے کی صورت میں ہے جس کے باعث یہ بیرونی حملہ آوروں کے لئے ہمیشہ سے ایک مشکل محاذ ثابت ہوا ہے۔ جب سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو سوویت افواج کو یہاں پر سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا اور متعدد کوششوں کے باوجود وہ اس وادی پر قبضہ نہیں کرسکے تھے اور یہ وادی روسی فوجیوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا تھا۔

رپورٹ: ایم رضا

Read 667 times