ایک سال پہلے لبنان کی بندرگاہ پر شدید اور تباہ کن دھماکے کے بعد سے اب تک اس ملک میں رونما ہونے والے واقعات کا جائزہ لینے سے یوں دکھائی دیتا ہے کہ بعض واضح اور خفیہ ہاتھ لبنان میں اقتصادی اور سماجی بحران ایجاد کرنے کیلئے باہمی تعاون میں مصروف ہیں۔ لبنان کے قومی مفادات کے خلاف جاری ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہر کسی میں نہیں اور جن محدود گروہوں میں یہ طاقت پائی جاتی ہے ان میں حزب اللہ لبنان کا نام سرفہرست ہے۔ حزب اللہ لبنان ملک کی سب سے زیادہ طاقتور اور اثرورسوخ کی حامل جماعت ہونے کے ناطے ان سازشوں کا بخوبی مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر امریکہ، یورپی ممالک اور سعودی عرب سمیت خطے میں ان کے پٹھو ممالک نے لبنانی عوام کے خلاف شدید ظالمانہ پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
لبنان کے خلاف ایسے اقتصادی اقدامات کا مقصد لبنان کی عوام، سیاسی رہنماوں نیز سیاسی جماعتوں کو مغرب نواز سیاسی رہنما سعد حریری کو وزارت عظمی کے عہدے پر فائز کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ لیکن لبنانی عوام کے ساتھ ساتھ اس ملک کی پارلیمنٹ اور صدر مائیکل عون نے بھی اس بارے میں اپنی مخالفت کا کھل کر اظہار کیا اور یوں ملک دشمن قوتوں سے سازباز کرنے سے انکار کر دیا۔ لبنان کی قومی آمدن کا بڑا حصہ سیروسیاحت کی صنعت سے حاصل ہوتا ہے۔ گذشتہ دو برس سے کرونا وائرس کے پھیلاو کے پیش نظر یہ صنعت دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں ہی ماند پڑ چکی ہے۔ لہذا لبنان ان سالوں میں شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہو چکا ہے۔ ایسے حالات میں لبنان کے کچھ ریاستی اداروں میں بیٹھے مغرب کے مہرے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔
ان مغرب نواز مہروں میں سے ایک اسٹیٹ بینک کے گورنر ہیں۔ انہوں نے مغربی طاقتوں کے اشارے پر زر مبادلہ کے ذخائر ملک سے خارج کر دیے جس کے باعث لبنانی عوام مزید معیشتی دباو کا شکار ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف گذشتہ کافی عرصے سے لبنان میں پیٹرول اور ڈیزل کی کمی پائی جاتی تھی جبکہ اسٹیٹ بینک کے گورنر نے ایندھن پر سبسڈی کا بھی خاتمہ کر دیا اور یوں اس کی قیمت آسمان کو چھونے لگی۔ ایک بڑی تعداد میں مفاد پرست عناصر نے پیٹرول اور ڈیزل کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی اور انتہائی مہنگے داموں عوام کو بیچنا شروع کر دیا۔ ایسے حالات میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اسلامی جمہوریہ ایران سے پیٹرول اور ڈیزل خریدنے کا اعلان کر دیا۔
چونکہ حزب اللہ لبنان دنیا کے مختلف حصوں میں اقتصادی اثرورسوخ کی حامل ہے اور اس کے پاس عالمی سطح پر اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے کیلئے کافی حد تک وسائل بھی موجود ہیں لہذا اس کا یہ فیصلہ کارگر ثابت ہوا۔ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران چونکہ خود بھی عرصہ دراز سے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی ظالمانہ اقتصادی پابندیوں سے روبرو ہے لہذا اس نے لبنانی عوام سے ہمدردی کرتے ہوئے فوراً اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا۔ یوں حزب اللہ لبنان نے اپنی تاجر برادری کی مدد سے ایران سے پیٹرول اور ڈیزل خریدنا شروع کر دیا۔ حزب اللہ لبنان کے اس اقدام نے سعدی حریری سمیت مغرب نواز حلقے میں شدید غصے اور بغض کی لہر دوڑا دی ہے۔ یہ حلقے لبنان کی سیاست اور اقتصاد کو بیرونی قوتوں سے وابستہ کرنا چاہتے ہیں۔
لبنان میں مغربی طاقتوں کے پٹھو حلقوں نے حزب اللہ اور ایران کے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع کر دیا اور عوام کو ان دونوں سے بدظن کرنے کی کوشش کی لیکن لبنانی عوام نے ان پر کوئی توجہ نہ دی۔ اسی طرح انہوں نے میڈیا پر بھی ایران اور حزب اللہ کے خلاف منفی فضا بنانے کی کوشش کی ہے۔ البتہ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے فوری طور پر پیٹرول اور ڈیزل کے آئل ٹینکر لبنان کی جانب روانہ کر دینے کی وجہ سے یہ کوشش بھی ناکامی کا شکار ہو چکی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کا یہ شجاعانہ فیصلہ اور اقدام لبنان کی سیاسی اور سکیورٹی فضا میں حزب اللہ کی برتری کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح اس اقدام نے ثابت کر دیا ہے کہ حزب اللہ لبنان سکیورٹی میدان میں مزاحمت کے ساتھ ساتھ اقتصادی مزاحمت کے مرحلے میں بھی داخل ہو چکی ہے۔
حزب اللہ لبنان کی نئی حکمت عملی اس وقت سامنے آئی جب اس کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے ایران سے لبنان کیلئے پیٹرول اور ڈیزل لانے والے آئل ٹینکرز کو لبنانی سرزمین کا حصہ قرار دیا اور اس پر کسی بھی ممکنہ حملے کا منہ توڑ اور موثر جواب دینے کی وارننگ دی۔ انہوں نے ان آئل ٹینکرز پر ہر قسم کی جارحیت کو لبنانی قوم اور حزب اللہ کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف قرار دیا اور شدید نتائج کی دھمکی دی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی بندرگاہوں سے پیٹرول اور ڈیزل کے حامل آئل ٹینکرز لبنان کی جانب روانہ ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ بعض آئل ٹینکرز شام کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ یوں علاقائی سطح پر حزب اللہ لبنان نے ملک کے اقتصادی مفادات کے دفاع کا بھی آغاز کر دیا ہے۔
تحریر: سید رضا صدر الحسینی