حضرت امام حسین ؑ نے اپنے اعزاء اور اصحاب کے ساتھ اسلام کی بقاء کیلئے عظیم قربانی پیش کی ۔ اس راہ میں امام عالی مقام ؑ نے کسی چیز سے بھی دریغ نہیں فرمایا یہاں تک کہ چھ مہینے کےشیرخوار بچے کو بھی بقاء اسلام کیلئے قربان کردیا ۔
اسلام کو مٹانے کی کوششیں
اسلام کو مٹانے کی کوششیں پیغمبر اکرم کی وفات سے ہی شروع ہوگئیں ۔ بنی امیہ نے اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا تھا ، اس کی حدود کو توڑ کر اس کے عہد و پیمان کو پارہ پارہ کردیا تھا ۔ اسلام نبوی پر اسلام اموی کا لبادہ ڈال دیا گیا تھا ۔ ظلم و بربریت ، درندگی و حیوانیت ، نکبت و رسوائی لوگوں کا مقدر بن چکی تھی ، وہ اسلام میں جاہلیت کے احکام نافذ کرنے لگے تھے ، کفر و شرک اور نفاق جیسی موذی مرض کو ہوا دینے لگے تھے ، ہر طرف ایک دھشت و خوف کا عالم تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے زمین و آسمان سب کچھ متغیر ہوکر رہ گیا ہے ۔تاریخ کہتی ہے کہ : ابوسفیان (ملعون) سید الشہداء حضرت حمزہ ؑ کی قبر پر ٹھوکر مارکر تمسخر و استہزاء آمیز لہجہ میں کہتا ہے :(اسلام کی زمام اب ہمارے ہاتھ میں ہے وہ حکومت ( جس کے ہم اور ہمارے لوگ متمنی تھے) جسے ہم نیزہ و تلوار کے ذریعے تم سے حاصل نہ کر پائے تھے اور تم نے ہمیں صدر اسلام میں بدر و احد جیسی جنگوں میں ذلیل و رسوا کیا تھا آج وہ ہمارے بچوں کے ہاتھ میں آگئی ! اٹھو اے بنی ہاشم کے بزرگو ! دیکھو وہ کس طرح اس سے کھیل رہے ہیں۔۔۔ ( تلقفوها تلقف الکرۃ)جیسے گیند بازی میں ایک دوسرے کو پاس دیتے ہیں اسی طرح یہ بھی حکومت کو اپنے بعد ایک دوسرے کے سپرد کررہے ہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ حکومت ، حکومتاسلامی ہے لیکن بادشاہت جاہلیت کی ہے ۔ پس فورا ً( اے عثمان ! تو ) تمام حکومتی مسائل و مقامات پر بنی امیہ کے افراد کو مقرر کردے ۔ دیر نہ کرکہ کہیں یہ آئی ہوئی حکومت ہمارے ہاتھ سے نکل نہ جائے ۔(1)معاویہ کی سازشیں :
معاویہ کے دور میں اس کے ہاتھ دو خطرناک ترین امور پایہ تکمیل کو پہنچے جن کی داغ بیل گذشتہ لوگوں کے عمل نے ڈالی تھی ۔ انہی دو امور نے اسلامی معاشرےکو پستی کی طرف دھکیل دیا۔
پہلا :
رسول اکرم کی عترت و اہل بیت ؑ جو کہ حامیان دین تھے اور قرآن کے ہم پلہ تھے ان کو اسلام سے کلی طور پر حذف کردیا گیا۔
دوسرا :
اسلامی نظام حکومت میں یکسر تغیر پیدا کرکے استبدادی سلطنت میں تبدیل کردیا ۔
معاویہ نے مملکت اسلامی پر قبضہ کیا اور اپنے لئے میدان خالی دیکھا تو مخالفت اہل بیت ؑ اور ان کے فضائل لوگوں کے دلوں سے ہٹانے کو اپنا معمول بنالیا ، بقول ابن ابی الحدید معاویہ نے اپنے تمام ملازمین اور حکام کو اس مضمون کا فرمان بھیجا : (ہر اس فرد کیلئے کوئی امان نہیں جو ابوتراب اور ان کے خاندان کے فضائل بیان کرے) (2)
نیز یہ بھی منقول ہے کہ تمام مساجد کے خطیبوں کو حکم دیا گیا : (منبروں سے حضرت علی ؑ اور ان کےخاندان کے ساتھ ناروا باتوں کو نسبت دی جائے ) ۔ پس اس حکم کے بعد حضرت علی ؑ اور ان کے خاندان پر گالی گلوچ کی جانے لگی۔معاویہ نے اپنے تمام حاکموں کو پیغام بھیجا :(اگر کسی کے بارے میں شیعہ علی ؑ و اہلبیت رسول ہونے کا پتہ چل جائے تو اس کی گواہی کسی معاملے میں قبول نہ کی جائے اور اگر کوئی علی ؑ کی کسی فضیلت کو حدیث رسول سے بیان کرے تو فوراً اس کے مقابلے میں ایک حدیث جعل کرواکر بیان کردی جائے ) ۔ ایک دوسرے فرمان میں اس نے لکھا :توجہ رہے کہ اگر کسی کیلئے ثابت ہوجائے کہ وہ شیعہ علی ؑ ہے تو اس کا نام فورا ً رجسٹر سے کاٹ دیا جائے اور اس کی تنخواہ و انعامات کو ختم کردیا جائے)۔(3) اسی فرمان کے ساتھ دوسرا حکم تھا کہ اگر کسی پر شبہہ ہوجائے کہ وہ اہلبیت ؑ کا دوست ہے تو اس کے گھر کو تباہ و برباد کرکے اسے شکنجے میں کس دیا جائے ۔۔۔)(4) معاویہ کے اس تمام پروپیگنڈے اور فرامین کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ حضرت علی ؑ پر سبّ و شتم کرنے کو ایک عبادت سمجھنے لگے اور بہت سے ایسے بھی تھے کہ اگر ایک دن علی ؑ کو ناسزا کہنا بھول جاتے تو اگلے دن اس کی قضاء کرتے تھے ۔یزید کی بالجبر بیعت :
معاویہ نے آخری مؤثرترین ضربت جو پیکر اسلام پر لگائی وہ یزید کی بالجبر بیعت تھی۔ اس نے اپنے نالائق اور پست ترین بیٹے یزید کیلئے لوگوں سے بیعت لی۔ خلافت اسلامی کو اپنا خاندانی ورثہ قرار دے دیا۔ تمام مورخین متفق ہیں کہ یزید حکومت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لائق نہ تھا۔ یزید عیش و عشرت کی زندگی کا دلدادہ تھا۔ ہر وقت شراب کے نشے میں مست رہتا تھا۔ اس کی راتیں مستی اور دن خمار میں بسر ہوتے تھے۔ وہ غیر از شراب اور معشوق کچھ نہ جانتا تھا۔ طہ حسین لکھتے ہیں کہ وہ لہو لعب ، فسق و فجور سے ملول ہوتا اور تھکتا نہ تھا ۔ (5)یعقوبی لکھتا ہے جب عبداللہ بن عمر سے یزید کی بیعت کے لئے کہا گیا تو انہوں نے یوں جواب دیا اس کی بیعت کروں جو بندرباز ، کتےّباز ہے ، شرابخوار ہے اور اعلانیہ فسق و فجور کے علاوہ اسے کوئی کام نہیں۔ میں خدا کے حضور اس کی بیعت کا کیا جواز پیش کروں گا ۔(6)امام حسینؑ کا یزید کی بیعت سے انکار:
محافظ اسلام و قرآن حسینؑ بن علیؑ نے اپنے قیام سے پہلے لوگوں کو بنی امیہ کی سازشوں سے آشنا کیا پھر یزید بن معاویہ ملعون کی بیعت نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے دنیا کے سامنے یزیدکے متنفر وجود پہچنوا کے ابنائے اسلام کے ضمیروں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا پھر آواز دی کہ اے لوگو: مجھے اور یزید فاسق و فاجر کو پہچانو! میں کہاں صاحب لولاک کا بیٹا اور کہاں یابن الطلقاء ، کہاں راکب دوش رسول اور کہاں لاعب کلوب ، کہاں آغوش رسالت میں پرورش پانے والا ! اور کہاں شام کے اندھیروں کا پروردہ ! (انا اهل بیت النبوة و معدن الرسالة ومختلف الملائکة و بنافتح الله و بنا ختم الله )( ہم خاندان نبوت و معدن رسالت ہیں ہمارا گھر فرشتوں کے آمد و رفت کی جگہ ہے ہم سے خدا کا فیض شروع ہوتا ہے اور ہم ہی پر اس کا فیض ختم ہوجاتا ہے…) ؛ اے لوگو!کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ کس طرح حق کو روپوش کیا جار ہا ہے اور نہ ہی باطل پر عمل سے لوگوں کو روکا جا رہا ہے ؟! ایسے حالات میں اے اہل ایمان آؤ ! راہ خدا میں شہادت اور اس کی ملاقات کے لئے آمادہ ہو جاؤ ! یاد رکھو ابو سفیان کا پوتا معاویہ کا فرزند یزید ملعون! ( رجل فاسق ، شارب الخمر ، قاتل النفس المحترمة ، معلن بالفسق و مثلی لا یبایع مثله…) ایسا شخص ہے جو شراب کا پینا والا ، لوگوں کو بے گناہ قتل کرنے والا ، کھلے عام فسق و فجور کو انجام دینے والا ، مجھ جیسا یزید ملعون جیسے کی بیعت ہرگز نہیں کرسکتا ! ) انا للہ و انا الیہ راجعون و علی الاسلام السلام اذ قد بلیت الامۃ براع مثل یزید ولقد سمعت جدی رسول اللہ یقول: الخلافۃ محرمۃ علی آل ابی سفیان ) (ایسے)اسلام پر فاتحہ پڑھ دینا چاہئیے جس کی زمامداری یزید جیسے (فاسق وفاجر شخص)کے ہاتھوں میں ہو ! میں نے اپنے جد امجد (حضرت رسالتمآب سے سنا ہےکہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ:آل ابی سفیان پر خلافت حرام ہے(7)
آل ابی سفیان کی حکومت کا اصل ہدف اور مقصد اسلام کو مٹانا اور قوم و ملت کی گردن پر مسلّط ہونا تھا۔ جیسا کہ یزید بے حیاء کا یہ کہنا اس بات کی روشن دلیل اس کا یہ معروف شعر ہے:
لعبتھاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل
(یہ سب بنی ہاشم کا ڈھونگ اور کھیل تماشا تھا !کون کہتا ہےکہ رسول پر ملائکہ نازل ہوا کرتے تھے اور ان پر وحی نازل ہوا کرتی تھی) تاریخ کے مطابق امام عالی مقامؑ نے 28 رجب المرجب 61 ہجری کو اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مدینہ منورہ سے کوچ کیا اور جب لوگوں نے آپؑ سے مدینہ کو خیر باد کرنے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا : ( خط الموت علی ولد آدم مخط القلادۃ علی جیدالفتاۃ…)بنی آدم کیلئے موت کا نوشتہ یوں آویزاں ہےجیسے دوشیزہ کے گلے میں گلوبند ہوتا ہے۔ مجھے اپنے بزرگوں سے ملنے کا وہی اشتیاق ہے جو یعقوبؑ کو یوسفؑسے ملنے کا تھا ، میری قتلگاہ ، گویا میں بیابانوں کے درندوں (کوفہ کے فوجیوں )کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ کربلا کی سرزمین پر میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں ۔۔۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ تم میں سے جو شخص بھی ہماری راہ میں اپنی جان کو قربان کرنے کا جذبہ رکھتا ہے وہ کل صبح ہمارے ساتھ سفر کیلئے تیار ہوجائے ۔(8) یاد رہے !(انی لم اخرج اشرا ولا بطرا ولا مفسدا ولا ظالما وانما خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی رسول اللہ ارید ان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر و اسیر بسیرۃ جدی و ابی علی بن ابیطالب ؑ )(9) (میں کسی تفریح ، بڑا بننے ، فتنہ و فساد اور ظلم ستم کیلئے اپنے وطن کو نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ میرے مدینے سے نکلنے کا مقصد اپنے جد رسول اللہ کی امت کی اصلاح ہے ، میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں ، اور چاہتا ہوں کہ اپنے نانا اور اپنے بابا علی بن ابیطالب ؑ کی سیرت پر عمل پیرا ہوں)۔ دیکھنا یہ ہے کہ کس قسم کی اصلاح تھی جو کہ مطلوب تھی ؟ آیا معاشی اصلاح تھی کہ لوگ مال حرام کھارہے تھے یا فکری اصلاح تھی ، کہ لوگ باطل اعتقادات کے شکار ہورہے تھے وغیرہ وغیرہ ۔ اس مقام پر زیارت اربعین کا یہ انمول فقرہ کیفیت اصلاح کی نشاندہی کرتا ہے:(و بذل مهجتة فیک لیستنقذ عبادک من الجهالة و حیرۃ الضلالة) (10)(اے خدا !)حسین ؑ نے اپنا خون جگر تیری راہ میں بہایا تاکہ تیرے بندوں کو جھالت ، گمراہی اور سرگردانی سے نجات دیں ۔ بنی امیہ نے بندگان خدا کو جہالت ، گمراہی اور سرگردانی میں رکھا ہوا تھا ۔ اگر امام حسین ؑ کا قیام نہ ہوتا تو خدا جانے لوگ کب تک اسی گمراہی اور جھالت و سرگردانی میں باقی رہتے !مؤرخین کے بقول واقعہ کربلا کے بعد ۳۰ سال کے اندر بنی امیہ و ۔۔۔ کی غاصب و مطلق العنان حکومت کے آگے ۲۰ مختلف انقلاب اسلامی ایسا سینہ سپر ہوگئے کہ جس کے باعث بنی امیہ کو اپنی بساط حکومت لپیٹ دینا پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے بنی امیہ کے ظلم و جبر کا خاتمہ ہوا اور ہر طرف ان کی مخالفت ہونے لگی اور جو لوگ اہل بصیرت ہیں آج تک ان سے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں اور ہر ظالم و جابر حکومت و حکمرانوں کے خلاف ( ہل من ناصر ینصرنا ) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں ۔
………………..
منابع :
(1) علی و شہر بی آرمان ، ص ۲۶۔
(2) ۔ شرح ابن ابی الحدید ، خطبہ ۲۰۰۔
(3) ۔ شرح ابن ابی الحدید ، ج ۳ ، ص ۲۴ ، طبع بیروت
(4) ایضا
(5) علیؑ و دو فرزندش ، ص262
(6) تاریخ یعقوبی ، ج 2 ، ص165
(7) لہوف ، ص11 ؛ بحارالانوار ، ج44 ، ص325
(8) سخنان حسین بن علی ؑ از مدینہ تا کربلا ، ص ۵۷۔
(9) بحار الانوار ، ج ۴۴ ، ص ۳۲۹ ۔ ۳۳۴۔
(10) مفاتیح الجنان ، زیارت اربعین۔