لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے درمیان مشترکہ سرحد کی لمبائی 79 کلومیٹر ہے جو غاصب صہیونی رژیم کے تسلط پسندانہ عزائم کے سبب ہمیشہ شدید تناو کا شکار رہتی ہے۔ سن 2000ء میں جب غاصب صہیونی افواج نے جنوبی لبنان سے پسماندگی اختیار کی تب بھی اس کا یہ اقدام لبنان کے خلاف جارحانہ اقدامات کا اختتام ثابت نہیں ہوا بلکہ گاہے بگاہے صہیونی فورسز سرحد کے اس پار سے لبنانی سرزمین کو ظالمانہ اقدامات کا نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ یوں حزب اللہ لبنان اور غاصب صہیونی رژیم کے درمیان موجود محاذ ہر لمحہ بارود کی بو دیتا ہے اور ایک چھوٹا سا واقعہ کسی بڑے واقعے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صہیونی حکمران سید حسن نصراللہ سے شدید خوفزدہ ہیں۔
سید حسن نصراللہ کی شخصیت انتہائی کاریزمیٹک شخصیت ہے اور اسرائیلی حکمران انہیں بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ انہوں نے جب اسرائیلی معاشرے کو مکڑی کے جال سے تشبیہہ دی اور یہ تاثر دیا کہ اسے اتنی آسانی سے نابود کرنا ممکن ہے تو ان کی یہ بات صہیونی حکمرانوں اور شہریوں کے ذہن میں پوری طرح بیٹھ گئی۔ صہیونی فوجی اس قدر حزب اللہ لبنان سے خوف کھاتے ہیں کہ خود کو حزب اللہ کے مجاہدین سے مقابلہ کرنے میں عاجز اور ناتوان محسوس کرتے ہیں۔ 2006ء میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ کے بعد صہیونی اخبار ہارٹز نے اپنی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا تھا کہ حسن نصراللہ عرب لیڈر ہیں لیکن عرب دنیا کے لیڈران سے بالکل مختلف ہیں۔ وہ بیہودہ بات نہیں کرتے اور جھوٹ نہیں بولتے اور ان کی باتیں قابل اعتماد ہوتی ہیں۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے حال ہی میں اپنی تقریر میں صہیونی رژیم کو کئی پیغام پہنچائے۔ پہلا پیغام یہ تھا کہ حزب اللہ کے فوجی کارخانے عام بیلسٹک میزائلوں کو ٹھیک نشانے پر مار کرنے والے میزائلوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ دوسرا پیغام یہ تھا کہ حزب اللہ لبنان کے سکیورٹی مراکز اسرائیل کی جاسوسی کرنے میں بہت اعلی درجے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہیں ایسی معلومات حاصل ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ تل ابیب نے حزب اللہ کے میزائلوں کے ذخائر کا کھوج لگانے کیلئے جاسوس لبنان بھیجے ہیں۔ لہذا وہ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے پہلے سے تیار ہیں۔ سید حسن نصراللہ کا تیسرا پیغام یہ تھا کہ حزب اللہ لبنان کی میزائل تیار کرنے والی فیکٹریاں ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور ایک جگہ واقع نہیں ہیں۔
اس تقریر کے صرف دو دن بعد لبنان کی سرحد کے قریب واقع مقبوضہ فلسطین کے قصبے الجلیل میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں۔ لبنان سے ایک ڈرون طیارہ مقبوضہ فلسطین میں داخل ہونے کی خبر ملی تھی جس کے نتیجے میں صہیونی سکیورٹی افراتفری کا شکار ہو گئی اور ان میں شدید ہلچل مچ گئی۔ صہیونی مسلح افواج کے ترجمان نے کہا کہ فولادی گنبد نامی فضائی دفاعی سسٹم اور جنگی طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر اس ڈرون طیارے کی تلاش میں مصروف ہیں۔ لیکن وہ مقبوضہ فلسطین میں داخل ہونے والے اس ڈرون طیارے کا سراغ نہ لگا سے۔ کچھ دیر بعد حزب اللہ لبنان نے ایک بیانیہ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اسلامی مزاحمت نے "حسان ڈرون" نامی ایک ڈرون طیارہ مقبوضہ فلسطین بھیجا جو چالیس منٹ جاسوسی کرنے کے بعد واپس لوٹنے میں کامیاب رہا ہے۔
حسان ڈرون طیارہ چالیس منٹ تک مقبوضہ فلسطین کے شمالی حصے میں 70 کلومیٹر تک علاقے کی جاسوسی کرتا رہا اور صہیونی سکیورٹی فورسز کی تمام تر کوشش کے باوجود کامیابی سے صحیح حالت میں لبنان واپس پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ اقدام ایک طرف حزب اللہ لبنان کی عظیم فوجی صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے جبکہ دوسری طرف غاصب صہیونی رژیم کے کھوکھلے پن اور مکڑی کے جال جیسی کمزوری کا واضح ثبوت ہے۔ حزب اللہ لبنان لاجسٹک اور فوجی اعتبار سے صہیونی رژیم کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔ جب سید حسن نصراللہ یہ کہتے ہیں کہ صہیونی فوجی جنگ کیلئے تیار نہیں ہیں، تو خود صہیونی حکمران ان کی اس بات پر سب سے زیادہ یقین کرتے ہیں اور انہیں بخوبی علم ہے کہ یہ بات حقیقت کے عین مطابق ہے۔
تل ابیب بہت اچھی طرح اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ مستقبل کی جنگ میں اس کے فوجیوں کی بڑی تعداد ماری جائے گی اور اس کے اہم اور حساس مراکز شدید حملوں کا نشانہ بنائے جائیں گے اور اس کی اقتصاد اور معیشت مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ اور اگر یہ جنگ زیادہ مدت تک جاری رہی تو صہیونی رژیم کے انفرااسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔ خود مختلف صہیونی حلقوں کے مطابق حزب اللہ لبنان کئی ہفتے تک جنگ کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور اگر اس کے آدھے میزائل بھی فضا میں تباہ کر دیے جائیں تب بھی بہت زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف صہیونی رژیم کے ایئر ڈیفنس سسٹم میں میزائلوں کی تعداد محدود ہے اور وہ صرف محدود حد تک ہی باہر سے آنے والے میزائلوں کا مقابلہ کر سکتا ہے
تحریر: علی احمدی