دو دنوں سے دل بڑا رنجیدہ ہے، صیہونی فورسز مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر حملہ آور ہیں اور تمام حدیں پار کرتے ہوئے مسجد کے اصل کمپاونڈ جہاں نماز جماعت ہوتی ہے، وہاں داخل ہوگئی ہیں۔ نہتے نمازی اسرائیلی بربریت سے بچنے کے لیے بار بار مسجد کے ستونوں کی پناہ لے رہے ہیں اور مسجد اقصیٰ میں دھواں بھرا ہوا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اگر مسلمان ایسا دیوار گریہ پر اسرائیلیوں کے ساتھ کرتے تو دنیا کے یہودیوں کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟ اسی طرح اگر مسلمان آرمی ویٹی کن پر قبضہ کرکے وہاں آنے والے مسیحی عبادت گزاروں کے ساتھ ایسا کرے تو مسیحی دنیا کیا ردعمل دے گی؟ اور تو چھوڑیں اگر بابری مسجد شہید کرکے زیر تعمیر رام مندر پر کسی نے ہندووں یاتریوں کے ساتھ ایسا ظلم و تشدد کیا ہوتا تو اس وقت دنیا بھر کے ہندووں کا کیا ردعمل ہوتا۔؟ افسوس ہے کہ کسی ملک کے پرچم کو جلا دینے پر جتنا ردعمل وہ ملک دیتا ہے، ہم نے بطور امت اتنا ردعمل اپنے قبلہ اول پر حملے پر بھی نہیں دیا۔ کیا اس سے دشمن کے حوصلے بلند نہیں ہوں گے؟ کیا وہ مزید ظلم و جبر کا مظاہرہ نہیں کرے گا؟ اس نے پورے قدس شہر کی ڈیموگرافی ہی تبدیل کر دی ہے۔ وہ شہر جو غالب مسلم اکثریت کا شہر تھا، اب مشرقی بیت المقدس میں بھی مسلمان اقلیت میں جا رہے ہیں۔
زندہ قومیں اپنے مقدسات کے تحفظ اور اپنی میراث کے تحفظ سے پہنچانی جاتی ہیں۔ فرانس کے صدر اسرائیل کے دورے پر جاتے ہیں، جہاں اسرائیلی سپاہی ان کے ساتھ اس چرچ میں داخل ہوتے ہیں، جو صدیوں سے فرانس کی ملکیت ہے اور ترک زمانہ خلافت میں فرانس کو بطور تحفہ لوٹایا گیا تھا۔ فرانسی صدر اسرائیلی سپاہیوں پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ صدر میکخواں نے پولیس اہلکاروں پر اُن قواعد کی خلاف ورزی کا الزام لگایا، جن کے تحت اسرائیلی پولیس اہلکاروں کا اُس چرچ میں داخلہ ممنوع ہے، جس کا وہ دورہ کر رہے تھے۔ صلیبی جنگوں کے زمانے کا سینٹ این نامی چرچ فرانس کی سرزمین سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے انگریزی زبان میں وارننگ دیتے ہوئے کہا "آپ نے جو میرے سامنے کیا ہے، وہ مجھے پسند نہیں آیا۔ یہاں سے نکل جائیں، پلیز،" کسی کو مشتعل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ پہلی بار ایسا نہیں ہوا بلکہ 1996ء میں اِسی چرچ کا دورہ کرتے ہوئے فرانس کے اُس وقت کے صدر ژاک شیراک بھی اسرائیلی اہلکاروں پر برہم ہوگئے تھے۔ اسرائیلی سکیورٹی اہلکاروں نے صدر شیراک کے ساتھ آنے والے فلسطینیوں، صحافیوں اور مشیروں کو باہر نکال دیا تھا۔
ایسا کیوں ہے؟ کیوں تمام سفارتی آداب کو پس پشت ڈال کر فرانس کے صدور اسرائیل پر چڑھ دوڑتے ہیں؟ اس کی وجہ فرانس کی عزت نفس اور وہ روایت ہے، جس میں وہ اس چرچ کو فرانسیسی سرزمین قرار دیتے ہیں اور اس کے اندر کسی قسم کی ریاستی مداخلت کو فرانس میں مداخلت سمجھتے ہیں۔ اس لیے پوری دنیا کے میڈیا کے سامنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ قومیں اسی سے پہچانی جاتی ہیں اور اسی کے ذریعے دنیا میں انہیں مقام و مرتبہ دیا جاتا ہے۔ اسرائیل مسلمان عقیدتوں کے مراکز پر بار بار حملہ کرتا ہے اور ہر بار وہ معاشرتی تجربات کرتا ہے کہ اس پر مسلمانوں کا ردعمل کیا ہوگا؟ دیکھیں ہمارے قبلہ اول پر حملہ ہوا، اس پر پوری امت نے کیا ردعمل دیا؟ یہ افسوسناک نہیں بلکہ شرمناک ردعمل ہے۔ وہی فلسطینی جو اسرائیلی جبر کے نیچے ہیں، انہوں نے اسی دن اسی جگہ ساٹھ ہزار کی تعداد میں جمعہ کی نماز میں شرکت کرکے یہ پیغام دیا کہ ہم اقصیٰ کے فرزند اور اس سرزمین کے سپوت ہیں، ہم اقصیٰ کی عزت کی حفاظت کریں گے۔ یہ مجبور و محکوم لوگ اتنا ہی کرسکتے ہیں۔
عمران خان صاحب اور ہمارے وزیراعظم محترم شہباز شریف نے ایک ایک ٹویٹ کرکے امت کی اس ذمہ داری سے بری ہوگئے؟ کیا اتنا کافی ہے۔؟ اللہ کے نبیﷺ سے منسوب یہ فرمان مشہور ہے، آپ نے فرمایا: "من اصبح لایتھم بامور المسلمین فلیس بمسلم* "اگر کوئی مسلمان ایک دن گزارے اور اس دن مسلمانوں کے امور سے متعلق کوئی اہتمام نہ کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے۔" ایک اور حدیث میں فرمایا: من سمع عیال المسلمین۔۔۔۔۔ "اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مدد کے لیے فریاد سنے اور اس کی آواز پر لبیک نہ کہے تو وہ اسلام سے باہر ہے۔" اب تو لگتا ہے کہ یہ فرامین بھی ہمارے اوپر اثر انداز نہیں ہوتے، ہم سنتے ہیں اور سن کر سن ہو جاتے ہیں۔ مسلمان تو دور کی بات ہے، ہم آزاد مرد بھی نہیں بنتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی مرد حر ہوگا تو وہ جہاں ظلم دیکھے گا، اس کی مذمت کرے گا اور مظلوم کی مدد و نصرت کی کوشش کرے گا۔ ہم مفادات کے اس قدر اسیر ہوچکے ہیں کہ ہمیں یہ ظلم نظر ہی نہیں آتا۔
میں دو تین دنوں سے سوشل میڈیا اور ٹویٹر کو فالو کر رہا تھا کہ کہیں ہم قدس کے لیے بھی آواز بلند کرتے نظر آئیں، مگر ایسا کچھ نہیں تھا۔ صیہونی ریاست یہودیت کی نمائندہ ریاست نہیں ہے، یہ فاشسٹ صیہونی ریاست ہے، جو مسلمانوں کی نہیں، انسانوں کی دشمن ہے۔ وہ اہل ایمان کی عقیدتوں پر حملہ کرکے انسانیت پر حملہ کرتی ہے اور بار بار ایسا کرکے اسے ایک نارمل چیز بنانا چاہتی ہے۔ کہاں وہ دن کہ مسجد اقصیٰ میں آگ لگنے کا سن کر پوری دنیا کے مسلمان اٹھ کھڑے ہوں اور ایک لولی لنگڑی او آئی سی کھڑی کر دیں اور کہاں یہ دن کہ مسجد اقصیٰ میں گولیاں چلائی جائیں اور مسجد سے دھویں کے بادل اٹھتے نظر آئیں اور اس پر نہ ہونے کے برابر ردعمل آئے۔؟ یہ عمل اسرائیل کے دھوکے میں آکر اس سے معاہدے کرنے والے نام نہاد عرب حکمرانوں کے لیے بھی پیغام کہ اسرائیلی امن ایسا ہی ہے، جس میں وہ آپ کے مقدسات کو آگ لگاتا رہے گا۔
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس