گذشتہ چند ہفتوں سے مقبوضہ فلسطین میں اسلامی مزاحمتی کاروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ ان کاروائیوں نے مقبوضہ فلسطین کی سکیورٹی صورتحال پر بہت ہی گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1)۔ حالیہ چند ہفتوں میں مقبوضہ فلسطین میں جو واقعات رونما ہوئے انہوں نے گذشتہ برس رمضان شریف میں انجام پانے والی مزاحمتی کاروائیوں کی یاد تازہ کر دی ہے۔ نیز ان کاروائیوں کو گذشتہ سال کی کاروائیوں کا تسلسل قرار دیا جا رہا ہے۔ گذشتہ برس اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے اپنی ہمیشگی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے قدس شریف کے قریب واقع شیخ جراح محلے کے باسیوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کرنے اور ان کی جگہ یہودی مہاجرین کو بسانے کی کوشش کی تھی۔
لیکن فلسطینیوں نے اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کا مظاہرہ کیا اور شدید احتجاج شروع کر دیا تھا۔ صہیونی سکیورٹی فورسز کے جارحانہ اقدامات کا جواب دینے کیلئے غزہ میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے صہیونی رژیم کو الٹی میٹم دیا اور جب اس نے اپنے جارحانہ اقدامات جاری رکھے تو مقبوضہ فلسطین پر میزائل حملوں کا آغاز کر دیا اور یوں "سیف القدس" معرکے کا آغاز ہو گیا۔ یہ معرکہ گیارہ دن جاری رہا اور آخرکار صہیونی رژیم اسلامی مزاحمت کی شرائط قبول کرنے پر تیار ہو گئی۔ اس سال اب تک اسلامی مزاحمتی گروہوں نے غاصب صہیونی رژیم کو الٹی میٹم دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ دوسری طرف اس سال مقبوضہ فلسطین کے اندر مزاحمتی کاروائیاں انجام پا رہی ہیں جن میں اب تک 14 صہیونی ہلاک اور دسیوں دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔
2)۔ مقبوضہ فلسطین میں حالیہ مزاحمتی کاروائیوں نے اسرائیل کی غاصب رژیم کو بری طرح چونکا دیا ہے کیونکہ اسے ایسی کاروائیوں کی بالکل توقع نہیں تھی۔ صہیونی رژیم اپنی بھرپور کوشش کے باوجود نئی مزاحمتی کاروائی کی پیشن گوئی کر کے اسے ناکام بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ اس بات نے صہیونی رژیم کی سکیورٹی کمزوریوں کو سب پر عیاں کر دیا ہے۔ فلسطینی مجاہدین دارالحکومت تل ابیب تک اندر گھسنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور انہوں نے کامیابی سے اس شہر میں مزاحمتی کاروائیاں انجام دی ہیں۔ اسی طرح ماضی کے برعکس فلسطینی مجاہدین اس بات آتشیں اسلحے کا بھی استعمال کر رہے ہیں جس نے صہیونی رژیم کو شدید ہراساں کر ڈالا ہے۔ تل ابیب میں انجام پانے والی مزاحمتی کاروائی میں بیرونی ساختہ ایم 16 بندوق کا استعمال کیا گیا اور یہ بات صہیونی حکمرانوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
3)۔ مقبوضہ فلسطین میں سکیورٹی بحران کا نتیجہ سیاسی اور سماجی بحران کی صورت میں ظاہر ہو چکا ہے۔ تقریباً ہر مزاحمتی کاروائی کے بعد مقبوضہ فلسطین کے باسی سڑکوں پر نکل کر غاصب صہیونی رژیم کی ناکامی کے خلاف احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس دوران کئی بار صہیونی سکیورٹی فورسز اور مظاہرین میں ٹکراو بھی انجام پا چکا ہے۔ دوسری طرف صہیونی رژیم یہودی آبادکاروں کو ایک اور طریقے سے مطمئن کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ صہیونی وزیراعظم نے ان کی طرف ہاتھ پھیلاتے ہوئے ان سے اپیل کی ہے: "جس کے پاس اسلحہ لائسنس موجود ہے وہ اپنا اسلحہ اپنے ساتھ رکھے۔" صہیونی وزیراعظم اس حقیقت سے غافل ہے کہ فلسطینی مجاہدین کو اسلحہ کے زور پر مزاحمتی کاروائیاں انجام دینے سے روکنا ممکن نہیں ہے۔
4)۔ غاصب صہیونی رژیم نے گذشتہ ہفتوں کے دوران انجام پانے والی مزاحمتی کاروائیوں کے ردعمل میں جنین شہر پر بہت بڑا حملہ کیا ہے۔ یہ شہر مغربی کنارے کے شمال میں واقع ہے اور اسلامی مزاحمتی سرگرمیوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ صہیونی حکمرانوں نے اس جارحیت کے ذریعے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ فلسطینی مجاہدین کی تمام تر سرگرمیاں جنین شہر تک محدود ہیں اور وہ انہیں بہت آسانی سے کچل سکتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامی مزاحمت پر مبنی سوچ اور سرگرمیاں پورے مقبوضہ فلسطین میں پھیل چکی ہیں اور اب صہیونی رژیم انہیں کنٹرول کرنے سے عاجز ہو چکی ہے۔ مزید برآں، خود یہودی آبادکار بھی اپنی حکومت سے شدید ناراض ہیں اور اسرائیل نامی جعلی ریاست چھوڑ کر واپس جانے کے رجحانات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
5)۔ غاصب صہیونی رژیم کا گمان تھا کہ بعض عرب ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے بعد اس کی قومی سلامتی محفوظ ہو جائے گی جبکہ وہ اس حقیقت سے غافل تھی کہ اصل خطرہ اس کے اندر پایا جاتا ہے۔ حالیہ مزاحمتی کاروائیوں کے بعد صہیونی اخبار ہارٹز لکھتا ہے: "ہم ایک ہفتہ پہلے مختلف قسم کے حالات سے دوچار تھا۔ مسلسل اجلاس اور میٹنگز پہلے ترکی میں اور اس کے بعد مصر میں منعقد ہوئیں۔ ہفتے کے دن بینٹ انڈیا جانا چاہتے تھے اور کچھ دن پہلے ہی النقب میں اجلاس منعقد ہوا جس میں شریک ممالک کے لحاظ سے بے مثال تھا۔ اس وقت یوں دکھائی دیتا تھا کہ اسرائیل جدید مشرق وسطی میں ایک نئے دور میں داخل ہونے والا ہے۔ لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے۔" دوسری طرف ہر مزاحمتی کاروائی کے بعد مختلف شہروں میں فلسطینیوں نے مٹھائیاں تقسیم کر کے اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے۔
تحریر: محمد صرفی
اسلام ٹائمز