انبیاء کی سرزمین مقبوضہ فلسطین

Rate this item
(0 votes)
انبیاء کی سرزمین مقبوضہ فلسطین


اگرچہ ناجائز صہیونی ریاست مظلوم فلسطینیوں پر کافی عرصے سے ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، لیکن ہر سال جب بھی مسلمانوں کا اسلامی مہینہ ماہ مبارک رمضان آتا ہے، تو ان مظالم کی شدت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور کھلم کھلا عالم اسلام کی غیرت کو للکارا جاتا ہے، طاقت کے نشے میں چور اسرائیلی افواج فلسطینی مسلمانوں پر حتیٰ کہ مسجد اقصیٰ جیسی مقدس مسجد میں بھی ظلم کرنے سے اور دہشتگردانہ کارروائیوں سے باز نہیں آتیں، یہ اور بات ہے کہ انہیں مزاحمت کی صورت میں منہ کی کھانا پڑتی ہے۔ ان دنوں صیہونی حکومت کے جنگی طیاروں اور ڈرون طیاروں نے بڑی تعداد میں غزہ پر فضائی حملے کئے، جس کا فلسطینی استقامت نے منہ توڑ جواب دیا۔ فلسطین کے استقامتی گروہوں نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ وہ صیہونی حکومت کی جارحیتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار ہیں اور اس کا ڈٹ کر جواب دیں گے اور جارحیت کی صورت میں نتائج کی ذمہ داری صیہونیوں پر ہوگی۔

گذشتہ برس بھی رمضان کے دوران غزہ کی پٹی پر مزاحمت کاروں کی بڑی کامیابی سے صیہونی ریاست اور اس کی فوجی قیادت کو شرمناک شکست ہوئی۔ رمضان المبارک میں ان کارروائیوں کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ تمام دنیا میں رمضان کے آخری جمعہ کو جمعۃ الوداع یوم فلسطین، یوم القدس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یوم القدس اسرائیل کے دل میں چبھتا ہوا ایک ایسا کانٹا ہے، جو اس کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے اور یہ کانٹا اس وقت تک نہیں نکل سکتا، جب تک اسرائیل ناجائز قبضے کو چھوڑ نہیں دیتا۔ انقلاب اسلامی ایران کے بانی اور عظیم اسلامی لیڈر امام خمینیؒ نے مسلمانوں کو مسئلہ فلسطین پر یوم القدس کی شکل میں ایک ایسا زبردست لائحہ عمل دیا ہے، جس کی وجہ سے ہر سال صیہونی ریاست کو پوری دنیا سے شدید مزاحمت کا سامنا پڑتا ہے اور بوکھلاہٹ میں صیہونی ریاست طاقت کے نشے میں یہ ناکام کوشش کرتی ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کو اپنی دہشتگردانہ کارروائیوں کے ذریعے دبا دے گی۔ لیکن ہر سال اسے نہ صرف اس میں ناکامی ہوتی ہے بلکہ دنیا کے سامنے شرمندہ بھی ہونا پڑتا ہے۔

گذشتہ برس 12 روزہ تباہ کن جنگ نے عالمی سطح پر اسرائیل کی ساکھ اور حیثیت کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ دو ہزار آٹھ، دو ہزار نو، دو ہزار بارہ اور دو ہزار اکیس میں غزہ کی پٹی کے علاقے میں ہونیوالی جنگوں کے بعد ایک ہی طرح کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ مرنے والوں کا سوگ مناتے فلسطینی باشندے، آئندہ جنگ کے خوف سے لرزتے بچے اور کھنڈرات پر گھروں کی تعمیر نو کی کوشش کرتے فلسطینی۔ تاہم بغور دیکھنے سے ایک بھیانک حقیقت سامنے آجاتی ہے، وہ یہ کہ تعمیر نو کا کوئی بھی منصوبہ ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں۔ جنگ زدہ علاقوں کی سیٹلائٹ تصاویر اور اموات کی تعداد دل ہلا دینے والے حقائق بیان کرتی ہیں۔ ایک وہ وقت تھا، جب دنیا کے کچھ بااثر یہودیوں نے یہودیوں کیلئے ایک آزاد ریاست بنانے کا سوچا۔ برطانوی حکومت نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا مسئلہ حل کرنا چاہا۔ یقیناً، انہوں نے پہلے یوگنڈا جانے اور اسے اپنا آبائی ملک بنانے پرغور کیا تھا۔ تھوڑی دیر کیلئے انہوں نے لیبیا کے دارالحکومت طرابلس جانے کا سوچا۔ چنانچہ انہوں نے جا کر اطالویوں سے بات کی، اس وقت طرابلس ان کے کنٹرول میں تھا، لیکن اطالویوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔ آخرکار انھوں نے انگریزوں کیساتھ معاہدہ کر لیا۔

بنیادی طور پر برطانیہ اور کچھ دوسرے مغربی ممالک کی امداد سے یہ سب کچھ ہوا تھا۔ لیکن یہ دھیرے دھیرے برطانیہ سے الگ ہو کر یہ سازشی امریکہ سے مل گئے۔ ان کو امریکہ نے آج تک اپنے بازوؤں میں لے رکھا ہے۔ اس لحاظ سے انہوں نے ایک ریاست بنائی اور فلسطین کی ریاست پر قبضہ کر لیا۔ اسرائیل کی بنیاد رکھتے وقت یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ فلسطینی اپنے گھروں کو لوٹیں گے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ عرب ممالک سلطنتِ عثمانیہ کیخلاف برطانوی اتحاد کی حمایت پر اس شرط پر شامل ہوئے تھے کہ جیت کی صورت میں انہیں آزادی دی جائے گی۔ مگر جنگ کے بعد تیل کے ذخائر پر نظر رکھنے والی قوتوں نے خطے کو اپنی مرضی کے مطابق بانٹنا شروع کر دیا اور نئی سرحدی تقسیم کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین کے علاقے کو تقسیم کرکے یہاں یہودی مملکت کی بنیاد رکھی گئی اور فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کر دیا گیا۔ مشرقی یروشلم جو جھگڑے کی بنیاد بنا، طے ہوا تھا کہ مسجد اقصیٰ مشرقی یروشلم میں ہی رہے گی اور یہ علاقہ اسرائیلی کنٹرول میں رہے گا یا آزاد رہے گا۔ کئی تبدیلیاں ہوئیں اور فلسطینیوں کو حق نہیں دیا گیا، جس کی وجہ سے وہ مزاحمت پر اتر آئے۔

مکار قابضوں نے بڑی فلسطینی زمینیں، جو عرب کسانوں اور کسانوں کی طرف سے کاشت کی گئی تھیں اور جو بہت سرسبز اور خوشحال تھیں، اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ قیمتوں پر، یورپ اور امریکہ میں ان بڑی زمینوں کے اصل مالکان سے خریدیں۔ یہ زمینیں ان لوگوں کی جاگیر بن گئیں، واقعی سخت طریقوں سے اور ظلم و بربریت کے ساتھ، آہستہ آہستہ کسانوں کو ان زمینوں سے بے دخل کرنا شروع کر دیا گیا۔ وہ جہاں گئے، ظلم و زیادتی کی اور ساتھ ہی انہوں نے جھوٹ اور فریب سے دنیا کی رائے عامہ کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا اور فریب سے اس ملک کو اپنی گرفت میں لینے میں کامیاب رہے۔ اس وقت بیرونی طاقتیں بھی ان کیساتھ تھیں۔ جس میں بڑے انگریز تھے۔ اقوام متحدہ اور اقوام متحدہ سے پہلے، نام نہاد امن کے مسائل کیلئے جنگ کے بعد قائم ہونیوالی لیگ آف نیشنز نے بھی ہمیشہ ان کی حمایت کی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ آج تک اقوام متحدہ تشویشی بیانات سے زیادہ آگے نہیں گیا۔

بہرحال جو کہا گیا اس پر عمل نہیں ہوا اور نہتے فلسطینی ٹینکوں، توپوں اور جدید ہتھیاروں کے مقابلے میں غلیلوں اور پتھروں سے مقابلے کرتے رہے ہیں۔ اس سنگین دہشتگردی اور انسانیت سوز مظالم سے معصوم بچے اور خواتین بھی محفوظ نہیں۔ آج غزہ کی ایک پوری نئی نسل روزگار کی اشد ضرورت کا سامنا کر رہی ہے، مگر اسے کام کاج کے بہت ہی کم امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ فلسطینی باشندے انتہائی غیر مطمئن اور ناگفتہ بہ صورتحال میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان میں سے 40 فیصد اپنے مستقبل کے بارے میں قطعی بے یقینی کا شکار ہیں اور اگر انہیں موقع ملے تو وہ غزہ پٹی کا علاقہ چھوڑ کر کہیں اور جانے کیلئے بھی تیار ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ مسلسل بحران کا شکار ہے اور جنگ ہر بار حالات کی سنگینی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ یہ نتیجہ فلسطینیوں کی جدوجہد اور مشکلات دونوں کو بڑھا دیتا ہے۔

فلسطینی حکام کے مطابق غزہ کی دو ملین کی آبادی کا 70 فیصد حصہ 30 سال سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ ان نوجوان بالغوں نے اپنا بچپن اور بلوغت کے سال باقاعدہ جنگ کے دوران "وار زون" میں گزارے ہیں۔ غزہ میں نوجوانوں کی اوسط عمر 19 اور اسرائیل میں 30 برس ہے۔ ان کو درپیش چیلنجز میں بیروزگاری اور طویل المدتی حالت جنگ میں زندگی بسر کرنے کے اثرات سے نمٹنا بھی شامل ہے۔ جب سے حماس نے غزہ پر قبضہ کیا ہے، اس علاقے میں بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوا ہے اور اس کی سطح مغربی اردن کے فلسطینی علاقے میں بیروزگاری سے دوگنا زیادہ ہے۔ 2012ء کی جنگ میں قریب ایک ہزار بچوں کی مدد سے ایک ریسرچ مکمل کی گئی، جن میں سے تقریباً ہر ایک نے کہا کہ اس نے ٹینکوں، توپوں اور فوجی طیاروں سے شیلنگ کی آوازیں سنی ہیں۔ ان میں سے نصف بچوں نے کہا کہ انہوں نے کسی نہ کسی کو زخمی ہوتے یا مارے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ انسانی حقوق کا جھوٹا راگ الاپنے والی مغربی دنیا، دنیا میں کہیں بھی کوئی واقعہ پیش آجائے، ٹھیکیدار بن جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں یوکرین پر چڑھائی کرنے کی وجہ سے روس کیخلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے، کیونکہ یہاں ان کے ذاتی مقاصد اور مفادات ہیں۔ ورنہ یہی انسانی حقوق اور ہمدردیاں سالہا سال سے فلسطین اور کشمیر میں ہونیوالے مظالم پر نہیں جاگتیں۔ اسرائیل اور بھارت کو ان مجرمانہ کارروائیوں سے کیوں نہیں روکا جاتا۔ کیونکہ جن پر ظلم ہو رہا ہے، وہ مسلمان ہیں اور اس میں قصور ان انسانی حقوق کے علمبرداروں کا نہیں بلکہ خود ہم ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا ہے، جو اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود متحد نہیں ہوتے۔ اقوام متحدہ کے دوغلے رویہ پر مایوسی ایک الگ بات ہے، جب دنیا کا کوئی ملک، ملکی سالمیت کے لئے خطرہ بن جائے تو اقوام متحدہ کا کام ہے کہ اس کیخلاف اقدام کرے، ایسے موقع پر فوراً بیان آجاتا ہے کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، لیکن جب خود امریکی دیگر اقوام اور خاص طور پر مسلمانوں کیخلاف یکطرفہ اقدام کرتے ہیں، تو یہ ایسے سر جھکائے بیٹھے رہتے ہیں، جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔

سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر قبضے کے بعد اسرائیل نے بہت سے تاریخی مقامات کو یا تو تباہ کر دیا یا انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اسرائیل اب تک فلسطین میں موجود 40 مساجد کا وجود مٹا چکا ہے۔ ان میں سے 20 کو قمار خانوں، جوا خانوں یا شراب خانوں، ہوٹلوں، مویشیوں کے باڑوں اور پولٹری فارموں میں تبدیل کیا گیا، جبکہ 18 مساجد کو یہودی معابد میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ یہودیوں کا دین ہے، جس میں غصب شدہ جگہ پر عبادت جائز ہے۔ اسی طرح ایک تاریخی مسجد تھی، جسے ایک شراب خانے میں بدل دیا گیا۔ القدس میں قائم تاریخی مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ ہسپتال بنایا گیا۔ اسی طرح المالحہ مسجد کو شراب خانے میں بدلا گیا۔ غاصب صہیونیوں نے فلسطین کی تاریخی املاک کو یہودیانے کے لیے ایک ظالمانہ قانون کا سہارا لیا اور املاک متروکہ کی آڑ میں درجنوں تاریخی عمارتوں کو غصب کیا گیا۔ یہ تمام اقدامات نہ صرف ریاستی دہشتگردی ہے بلکہ مسلمانوں کی غیرت کو بھی للکارا گیا ہے، مگر افسوسناک مقام یہ ہے کہ عالم اسلام میں اتحاد و اتفاق کا فقدان ہے۔

حال ہی میں پاکستان میں ہونیوالے او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم فلسطین اور کشمیر پر ناکام ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح فلسطین میں دن دیہاڑے ڈکیتی ہو رہی ہے، اگر ہم متحد نہ ہوئے اور ایک موقف نہ اپنایا تو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ طاقتیں جانتی ہیں کہ ہم ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں، مگر پھر بھی ہم ناکام ہیں، ہم کوئی اثر نہیں ڈال سکے، ہم منقسم ہیں، حالانکہ ہم کسی ملک پر قبضے کی بات نہیں کرتے، بین الاقوامی قانون بھی ہمارے ساتھ ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا فلسطین کا یہ عالم دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے غم و غصے کا باعث ہے، مسئلہ فلسطین مشرق وسطیٰ میں تنازعات کا مرکز ہے۔ اگر تمام عالم اسلام اور ان کے حکمران ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں تو کسی کو مسلمانوں کیخلاف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کی جرات نہ ہو۔ امام خمینی ؒ فرمایا تھا کہ اگر تمام دنیا کے مسلمان متحد ہوکر ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل کی طرف پھینک دیں تو اسرائیل بہہ جائے گا۔ یہ ہے اسرائیل کی اصل حیثیت اور واقعی اس میں کوئی شک نہیں ایک چھوٹی سی ناجائز ریاست نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو تکلیف میں مبتلا کر رکھا ہے۔

تحریر: شبیر احمد شگری

Read 340 times