غاصب صہیونی رژیم ایک سراسر جعلی ریاست

Rate this item
(0 votes)
غاصب صہیونی رژیم ایک سراسر جعلی ریاست

فلسطین پر صہیونی رژیم کے غاصبانہ قبضے کو 74 برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔ ان تمام سالوں میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ یہ جعلی رژیم اس مقدس سرزمین پر اپنا تسلط مستحکم کرنے میں ناکام رہی ہے اور خود کو ایک قابل قبول ریاست کی حد تک نہیں لا سکی۔ کسی بھی نئی ریاست کے معرض وجود میں آنے کے بعد اسے خود کو منوانے میں زیادہ سے زیادہ 25 سال، یعنی ایک نسل کا وقت درکار ہوتا ہے۔ اس کی ایک اچھی مثال پاکستان کا جنم لینا ہے۔ پاکستان نے اپنی تشکیل کے 25 سال بعد استحکام حاصل کیا اور 1972ء میں ہندوستان نے بھی اسے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرکے اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ اسی طرح بنگلہ دیش، عراق، سعودی عرب، کویت، قطر، عمان، مصر، الجزائر، تیونس وغیرہ دیگر مثالیں ہیں۔

لیکن کیا وجہ ہے کہ غاصب صہیونی رژیم اب تک خود کو تسلیم نہیں کروا سکی اور اس کی مسلح افواج اب بھی ہائی الرٹ ہیں؟ اس کی ایک اہم اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا مثالوں میں اگرچہ ان ریاستوں کی تشکیل سے پہلے اس نام کا کوئی ملک موجود نہیں تھا، لیکن سرزمین اور قوم موجود تھی۔ مثال کے طور پر پاکستان بننے سے پہلے جو عوام یہاں زندگی بسر کر رہے تھے، وہ یہیں کے مقامی افراد تھے اور انہیں دنیا کے کسی اور کونے سے اکٹھا کرکے یہاں نہیں لایا گیا تھا۔ لاہور، کراچی، راولپنڈی وغیرہ کے باسی گذشتہ کئی نسلوں سے اپنے آبائی گھروں میں مقیم تھے اور ان شہروں کی زمین ان کی آبائی ملکیت تھی اور وہ ان شہروں کے پکے شہری تھے۔ یہ سرزمینیں اور وہاں کے باسی ناقابل انکار حقیقت تھے اور فرق صرف یہ تھا کہ ان پر حکمران کوئی اور تھا۔

لہذا جب پاکستان بنا تو صرف حاکمیت تبدیل ہوئی اور ریاست کے باقی عناصر جوں کے توں باقی رہے۔ دوسری طرف جب ہم اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی تشکیل کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہاں ریاست کا کوئی بھی عنصر موجود نہیں تھا۔ نہ ان کی سرزمین تھی، نہ ہی قوم تھی اور نہ ہی حاکمیت پائی جاتی تھی۔ چونکہ حاکمیت بھی دراصل قوم اور سرزمین کے ملاپ سے معرض وجود میں آتی ہے، لہذا غاصب صہیونی رژیم جعلی ہونے کے اندر جعلی اور اس کے اندر بھی جعلی ہے۔ یعنی تین سطح پر جعلی پن تشکیل پایا ہے، تب جا کر اسرائیل کی جعلی صہیونی رژیم معرض وجود میں لائی گئی ہے۔ 75 برس یعنی تین نسلیں گزر جانے کے بعد بھی فلسطین میں مزاحمت جاری رہنا بذات خود غاصب صہیونی رژیم کے جعلی ہونے کا بڑا ثبوت ہے۔

آج بھی جب غزہ کی پٹی، رام اللہ، حیفا، بئر السبع، صفد، یافا، عکار وغیرہ میں ایک فلسطین بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں ہوتا کہ اس کا ملک مقبوضہ حالت میں ہے اور اسے اپنے ملک کو آزاد کروانے کیلئے جدوجہد انجام دینی چاہیئے۔ لہذا آج ہم دیکھتے ہیں کہ مقبوضہ فلسطین کے چپے چپے میں مزاحمتی کارروائیاں اور آزادی کی جدوجہد جاری ہے اور تمام فلسطینی شہری اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے شہریوں کی نظر میں ان کی سرزمین غصب شدہ ہے اور غزہ کی پٹی میں خان یونس، مغربی کنارے میں الخلیل، جنوب میں بئر السبع اور شمال میں صفد میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ یوں فلسطینی سرزمین آج بھی وہی سرزمین ہے جو 1948ء میں تھی اور آج بھی اس کا وہی تشخص ہے، جو غصب ہونے سے پہلے پایا جاتا تھا۔

فلسطین کی اسلامی سرزمین پر اسرائیل جیسی جعلی ریاست تشکیل دینے پر مبنی مغربی دنیا کے مجرمانہ اقدام کو 74 سال گزر جانے کے بعد بھی یہ جعلی رژیم اسلامی مقدس مقامات پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اب بھی اہم مذہبی مواقع پر غاصب صہیونی افواج ان مقدس مقامات کا محاصرہ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں اور آج بھی یہ مقدس مقامات فلسطینی مسلمانوں اور یہودی آبادکاروں کے درمیان شدید جھڑپوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ابھی اسی وقت الخلیل، نابلس اور قدس شریف میں مسلمانوں کے مقدس مقامات غاصب صہیونی افواج کے محاصرے میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقدس مقامات اب بھی متنازعہ ہیں اور ان کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا اور غاصب صہیونی رژیم ان پر اپنا تسلط قائم نہیں کر پائی ہے۔

اس بات کی اہمیت اس وقت زیادہ ابھر کر سامنے آتی ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ صہیونی رژیم کے بانیوں نے یورپ، افریقہ اور ایشیاء میں مقیم یہودیوں کو یہ لالچ دے کر فلسطین بلایا تھا کہ وہاں انہیں مقدس مقامات تک مکمل رسائی حاصل ہوگی۔ آج ان یہودی مہاجرین کی اکثریت مر چکی ہے یا جوانی میں ہی اسرائیل چھوڑ کر واپس جا چکی ہے۔ ان میں سے بعض اس حد تک مسن ہوچکے ہیں کہ ان مقدس مقامات کی جانب جانے کی جرات نہیں کرتے۔ وہاں جا کر اپنی مذہبی رسومات ادا کرنا تو دور کی بات ہے۔ غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے یہودی آبادکاروں کو فلسطین کے مشرقی حصوں میں بسانا بھی اس رژیم کی کمزوری کی علامت ہے، کیونکہ تقریباً تمام مقدس مقامات فلسطین کے مغربی حصوں میں واقع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی فلسطین میں مسلمان شہریوں کی تعداد یہودی آبادکاروں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی

اسلام ٹائمز

Read 347 times