رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حسب دستور قدیم امسال بھی حجاج کرام کے نام رہنما پیغام جاری کیا جس میں آپ نے حج کے رموز و اسرار، عالم اسلام کی توانائیوں، انہیں درپیش چیلنجوں اور انکے سلسلے میں دشمنوں کی سازشوں کی نشاندہی کی۔
رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام حج حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمد المصطفی و آلہ الطاھرین و صحبہ المنتجبین.
خداوند عزیز و حکیم کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ایک بار پھر حج کے مبارک ایام کو مسلمان اقوام کی وعدہ گاہ بنایا اور اپنے فضل و رحمت کا راستہ ان کے لیے کھولا۔ مسلم امہ ایک بار پھر اس شفاف اور ابدی آئينے میں اپنے اتحاد و یکجہتی کا مشاہدہ کر سکتی ہے اور انتشار و تفرقے کے محرکات سے منہ موڑ سکتی ہے۔
مسلمانوں کا اتحاد، حج کے دو بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے جو اگر ذکر اور روحانیت کے – جو اس پراسرار فریضۂ واجب کا دوسرا ستون ہے – ہمراہ ہو جائے تو امت مسلمہ کو عزت و سعادت کی چوٹی پر پہنچا سکتا ہے اور اسے وَلِلَّہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلْمُؤْمِنِين (1) کا مصداق قرار دے سکتا ہے۔ حج، ان دو سیاسی اور روحانی عناصر کا مجموعہ ہے اور دین مقدس اسلام، سیاست و روحانیت کا ایک عظیم اور پرشکوہ مجموعہ ہے۔
حالیہ تاریخ میں مسلم اقوام کے دشمنوں نے ان دو حیات بخش عناصر یعنی وحدت اور روحانیت کو کمزور کرنے کے لیے ہماری اقوام کے درمیان بہت زیادہ ریشہ دوانیاں کی ہیں۔ وہ معنویت کو، مغربی طرز زندگي کا پرچار کر کے، جو روحانیت سے عاری اور مادی کوتاہ فکری کا نتیجہ ہے، بے رنگ اور بے جان کر رہے ہیں اور وحدت کو زبان، رنگ، نسل اور جغرافیائي حدود جیسے تفرقے کے بے بنیاد محرکات کو پھیلا کر اور ان میں شدت پیدا کرکے چیلنج کر رہے ہیں۔
امت مسلمہ کو، جس کا ایک چھوٹا سا نمونہ اس وقت حج کے علامتی مراسم میں دیکھا جا رہا ہے، اپنے پورے وجود کے ساتھ مقابلے کے لیے اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ یعنی ایک طرف خدا کی یاد، خدا کے لیے عمل، کلام خدا میں غور و فکر اور اللہ کے وعدوں پر اعتماد کو اپنے اجتماعی ادراک میں مضبوط بنائے اور دوسری طرف تفرقے اور اختلاف کے محرکات کو قابو میں کرے۔
آج جو بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا اور عالم اسلام کے حالات، اس گرانقدر کوشش کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ مناسب اور سازگار ہیں۔
کیونکہ اول تو یہ کہ اسلامی ممالک میں دانشوروں اور عوام کی بہت بڑی تعداد، اپنے عظیم عرفانی و روحانی اثاثے کی طرف متوجہ ہو چکی ہے اور اس کی اہمیت اور قدر و قیمت کو سمجھ چکی ہے۔ مغربی تمدن کے سب سے اہم تحفے کی حیثیت سے آج لبرلزم اور کمیونزم اپنی سو سال اور پچاس سال پہلے کی جاذبیت کھو چکے ہیں۔ سرمائے کے محور پر قائم مغربی ڈیموکریسی کے اعتبار پر سنجیدہ سوالیہ نشان لگ چکے ہیں اور مغربی مفکرین اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ شناخت اور عمل کے لحاظ سے سرگرداں ہو چکے ہیں۔ عالم اسلام میں نوجوان، مفکرین اور علم اور دین کے میدان میں سرگرم افراد اس صورتحال کو دیکھ کر، اپنے عرفانی سرمائے اور اسی طرح اپنے ملکوں میں رائج سیاسی خطوط کے بارے میں نئی رائے قائم کر رہے ہیں۔ یہی اسلامی بیداری ہے جس کا ہم ہمیشہ ذکر کرتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ اس اسلامی خود آگہی نے عالم اسلام کے دل میں ایک حیرت انگيز اور معجز نما چیز پیدا کر دی ہے جس کا مقابلہ کرنے میں سامراجی طاقتوں کو دانتوں پسینہ آ جاتا ہے۔ اس چیز کا نام 'استقامت' ہے اور اس کی حقیقت ایمان، جہاد اور توکل کی طاقت کا مظاہرہ ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کے ایک نمونے کے بارے میں اسلام کے ابتدائي دور میں یہ آيت نازل ہوئي تھی: " الَّذِينَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھمْ اِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ؛ فَانقَلَبُوا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللَّہ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْھُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّہِ وَاللَّہُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ (2) فلسطین کا میدان اس حیرت انگیز حقیقت کی ایک جلوہ گاہ ہے اور اس چیز نے تخریب کار صیہونی حکومت کو جارحانہ انداز اور شرانگیزی کی حالت سے نکال کر دفاعی پوزیشن اور پسپائي کی حالت میں لا کھڑا کیا ہے اور اس پر کھلی ہوئی سیاسی، سیکورٹی اور معاشی مشکلات مسلط کر دی ہیں۔ استقامت کے دیگر درخشاں نمونوں کو لبنان، عراق، یمن اور بعض دوسری جگہوں پر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
تیسرے یہ کہ ان سب کے ساتھ ہی آج دنیا اسلامی مملکت ایران میں، اسلام کی سیاسی حاکمیت و اقتدار کا ایک کامیاب اور سرفراز نمونہ دیکھ رہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کا استحکام، خود مختاری، پیشرفت اور عزت، ایک بہت عظیم، با معنی اور پرکشش امر ہے جو ہر بیدار مسلمان کے افکار و جذبات کو اپنی جانب مائل کر سکتا ہے۔ اس نظام کے ہم ذمہ داروں اور عہدیداروں کی بعض کمیاں اور ناقص کارکردگياں، جن کے باعث اسلامی حکومت کی تمام برکتوں تک مکمل رسائی میں تاخیر ہوئی، اس نظام کے مضبوط ستونوں اور ٹھوس قدموں میں، جن کا سرچشمہ اس کے بنیادی اصول ہیں، کبھی بھی لرزش پیدا نہیں کر سکیں اور نہ ہی اس کی مادی و معنوی پیشرفت کو روک سکی ہیں۔ ان بنیادی اصولوں میں سرفہرست، مقننہ اور انتظامیہ میں اسلام کی حاکمیت، ملک کے سب سے اہم انتظامی امور میں عوام کی رائے پر اعتماد، مکمل سیاسی خودمختاری اور ظالم طاقتوں کی طرف نہ جھکنا ہے۔ یہی اصول مسلم اقوام اور حکومتوں کے اتحاد کی بنیاد قرار پا سکتے ہیں اور امت مسلمہ کو فیصلوں اور تعاون میں متحد اور ہم آہنگ کر سکتے ہیں۔
یہ وہ اسباب و عناصر ہیں جنھوں نے عالم اسلام کے متحد اور ہم آہنگ ہو کر آگے بڑھنے کے لیے موجودہ موافق اور سازگار حالات فراہم کئے۔ مسلمان حکومتوں، مذہبی شخصیات اور اسکالرز، خودمختار و آزاد منش روشن فکر افراد اور حقیقت کے متلاشی نوجوانوں کو ان سازگار حالات سے پہلے سے زیادہ استفادے کے بارے میں دوسروں سے بڑھ کر سوچنا چاہیے۔
فطری بات ہے کہ سامراجی طاقتیں اور سب سے بڑھ کر امریکا، عالم اسلام میں اس قسم کا رجحان دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوں اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں اور اس وقت ایسا ہی ہو رہا ہے۔ میڈیا کے میدان میں ڈکٹیٹرشپ اور سافٹ وار کے مختلف طریقوں سے لے کر جنگ شروع کرنے اور پراکسی وار کے شعلے بھڑکانے تک اور سیاسی ترغیبوں اور جاسوسی سے لے کر دھمکی، لالچ اور رشوت دینے تک، یہ سارے حربے امریکا اور دوسری سامراجی طاقتوں کی جانب سے استعمال کئے جا رہے ہیں تاکہ اسلام کو، بیداری اور سعادت کی راہ سے ہٹایا جا سکے۔ اس خطے میں مجرم اور نفرت انگیز صیہونی حکومت بھی اسی ہمہ گیر کوشش کے حربوں میں سے ایک ہے۔
اللہ کے فضل اور اس کی مشیت سے زیادہ تر موقعوں پر یہ کوششیں ناکام رہی ہیں اور گھمنڈی مغرب، ہمارے حساس خطے اور حالیہ دنوں میں پوری دنیا میں روز بروز زیادہ کمزور ہوا ہے۔ خطے میں امریکا اور اس کے مجرم ساتھی یعنی غاصب صیہونی حکومت کی پریشانی اور ناکامیوں کو فلسطین، لبنان، شام، عراق، یمن اور افغانستان کے واقعات میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کے مقابلے میں عالم اسلام جوش و جذبے والے نوجوانوں سے بھرا ہوا ہے۔ مستقبل کی تعمیر کے لیے سب سے بڑا سرمایہ، امید اور خود اعتمادی ہے جو آج عالم اسلام خاص طور پر اس خطے کے ممالک میں لہریں مار رہی ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس سرمائے کی حفاظت اور اس میں اضافہ کریں۔
ان سب کے باوجود دشمن کی چالوں سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں رہنا چاہیے۔ غرور و غفلت سے دور رہنا چاہیے اور اپنی کوششوں اور بیداری میں اضافہ کرنا چاہیے۔ ہر حال میں اللہ تعالی کی طرف پوری توجہ اور خضوع کے ساتھ خدائے قادر و حکیم سے مدد مانگنی چاہیے۔
حج کے اعمال و مناسک میں شرکت، اللہ پر توکل و دعا اور اسی طرح غور و فکر اور فیصلے کا بڑا اہم موقع ہے۔ پوری دنیا میں اپنے مسلمان بھائيوں اور بہنوں کے لیے دعا کیجیے اور ان کی توفیق اور کامیابی، خداوند عالم سے طلب کیجیے۔ اپنے اس بھائي کی ہدایت اور مدد کی دعا کو بھی اپنی خالص دعاؤں میں شامل کیجیے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
سید علی خامنہ ای
5 ذی الحجۃ 1443
14 تیر 1401 بمطابق 5 جولائي 2022
******
(1) سورۂ منافقون، آیت 8 (اور ساری عزت تو صرف اللہ، اس کے رسول اور مؤمنین کے لیے ہے۔)
(2) . سورۂ آل عمران، آیات 173 اور 174 (وہ کہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمھارے خلاف بڑا لشکر اکٹھا کیا ہے لہٰذا تم ان سے ڈرو۔ تو اس بات نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کر دیا۔ اور انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بڑا اچھا کارساز ہے۔ تو یہ لوگ اللہ کی عنایت اور اس کے فضل و کرم سے اس طرح (اپنے گھروں کی طرف) لوٹے کہ انھیں کسی قسم کی تکلیف نے چھوا بھی نہیں تھا اور وہ رضائے الٰہی کے تابع رہے اور اللہ بڑے فضل و کرم والا ہے۔)
(بشکریہ: khamenei.ir)