خطے میں امریکی شرارت کے نئے آثار

Rate this item
(0 votes)
خطے میں امریکی شرارت کے نئے آثار

امریکہ نے روس کے خلاف جنگ کے کھیل میں مختلف قسم کے اہداف کا تعین کر رکھا تھا جن میں روس کو عالمی سیاست سے نکال باہر کرنا اہم ترین اور پہلی ترجیح کا حامل مقصد تھا۔ پراکسی جنگ پر مبنی اس منصوبے کا ایک اور مقصد یورپ کو روس کے مقابل لا کھڑا کر کے اور اسے شدید بحرانی حالات سے دوچار کر اپنے ساتھ وابستہ کرنا اور اپنے اوپر اس کا انحصار قائم کرنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے یہ کوشش کی گئی کہ روس اور یوکرائن جنگ کی بابت یورپ کو بھاری تاوان ادا کرنا پڑ جائے۔ اس طرح یورپ اور روس کے درمیان تعلقات امریکہ کی مرکزیت میں قائم مغربی نظام کے کنٹرول میں رہ سکیں گے اور یورپ بھی عالمی سطح پر چین کے خلاف جاری طاقت کی رسہ کشی میں امریکہ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔
 
لیکن امریکی حکمرانوں کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ روس اپنے پاس موجود انرجی کے کارڈ کے ذریعے مغربی دنیا کو معیشت، صنعت اور حتی غذائی مواد کے میدانوں میں انتہائی وسیع اور سنگین بحران سے روبرو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس وقت امریکی نظام اور انرجی کے شعبے میں اس سے وابستہ مراکز منافع جمع کرنے میں مصروف ہیں جبکہ مغربی عوام کی معیشت روز بروز بدتر ہوتی جا رہی ہے اور ان کیلئے زندگی ناقابل برداشت ہو رہی ہے۔ امریکہ نے روس کو مزید بحرانوں سے روبرو کرنے کیلئے مغربی ایشیا، وسطی ایشیا اور برصغیر کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا خطے کا حالیہ دورہ اسی حکمت عملی کے تناظر میں انجام پایا ہے۔ امریکہ ساتھ ساتھ اسلحہ ساز کمپنیوں کے مالکین کے ذریعے اقتصادی مفادات کے حصول کیلئے بھی کوشاں ہے۔
 
طالبان کو نگل کر افغانستان اور وسطی ایشیا میں اپنی فوجی مداخلت کا زمینہ فراہم کرنے کی امریکی حکمت عملی تقریباً مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ عنقریب ازبکستان میں افغانستان سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہونے والی ہے اور سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔ یوں داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں پر مشتمل امریکی کارڈ بھی تقریباً ناکارہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر جو بائیڈن اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ مغربی ایشیا خطے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مغرب کو درپیش انرجی کے بحران میں ان کی زیادہ مدد نہیں کر سکتے بلکہ اس خطے میں اگر کوئی ملک ان کیلئے مددگار ثابت ہو سکتا ہے تو وہ عراق ہے۔ یاد رہے عراق کے تیل کی خرید و فروش مکمل طور پر امریکہ کے کنٹرول میں ہے۔
 
لہذا عراق کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے خطے میں اسرائیل کی مرکزیت میں تشکیل پانے والے بلاک کی جانب دھکیلنا اور اسے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے پر مجبور کرنا، امریکہ کیلئے سعودی عرب سے بھی کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ان ہتھکنڈوں میں عراق کو جیوپولیٹیکل ایشوز کے ذریعے بلیک میل کرنا اور معیشت اور سکیورٹی کے شعبوں میں نت نئے بحرانوں سے روبرو کرنا شامل ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ سعودی حکمران اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ اپنے خفیہ تعلقات کو منظرعام پر لانے کی جرات نہیں رکھتے لیکن انہوں نے جیوپولیٹیکل، جیوگرافیکل، انرجی، سکیورٹی اور دیگر شعبوں میں اپنی تمام تر صلاحیتیں صہیونی حکمرانوں کے سپرد کر رکھی ہیں۔ اسی طرح آل سعود رژیم غاصب صہیونی رژیم کو بھرپور انداز میں سکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون فراہم کرنے میں مصروف ہے۔
 
جو بائیڈن کے مشرق وسطی کے حالیہ دورے کا نتیجہ جنگ طلب اتحاد سازی کی صورت میں ظاہر ہو گا جس کا خاص نشانہ یمن بنے گا اور اس کا مقصد امریکہ اور اسرائیل کی اسلحہ ساز کمپنیوں کی معیشت کی بحالی ہو گی۔ عراق میں انرجی کے ذخائر امریکہ کے کنٹرول میں ہیں اور امریکہ انہیں یورپ کو درپیش انرجی کے بحران سے نمٹنے کیلئے استعمال کرے گا۔ اسی طرح عراق کو خطے میں اسرائیلی بلاک میں دھکیلنے کی کوششوں میں تیزی آئے گی۔ امریکہ مغربی ایشیا میں بھی براہ راست جنگ کا خطرہ مول لینے کیلئے تیار نہیں ہے لہذا خطے میں اپنی پٹھو عرب حکومتوں کو اسرائیل سے معاہدوں پر اکسا رہا ہے تاکہ یوں اسرائیل کی بدمعاشی اور شدت پسندی کے اخراجات ان عرب ممالک کے ذریعے پورے کئے جا سکیں۔
 
حقیقت یہ ہے کہ جو بائیڈن خطے اور دنیا میں امن و استحکام کی خاطر سرگرم عمل نہیں ہیں بلکہ ان کا مقصد پراکسی جنگوں اور دہشت گردانہ اقدامات کے ذریعے سکیورٹی بحران ایجاد کر کے دنیا کے مختلف حصوں میں موجود قدرتی ذخائر کی لوٹ مار اور اپنا فوجی اور سیاسی اثرورسوخ بڑھانا ہے۔ اگرچہ مغربی ایشیا، وسطی ایسیا، افغانستان اور پاکستان میں امریکہ کی پوزیشن انتہائی متزلزل ہے لیکن ہمیں کسی صورت امریکی اقدامات اور سازشوں سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنی حالیہ تقریر میں امریکی اور مغربی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے بڑے پیمانے پر ذہانت آمیز کھیل کھیلنے پر زور دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حکمت عملی اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت اور اثرورسوخ میں اضافے کا باعث بنے گی۔

تحریر: ہادی محمدی
 

Read 334 times