اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بورل کے ساتھ ٹیلیفونی گفتگو میں جوزف بورل اور نائـب سربراہ انریکے مورا کی کوششوں کی قدردانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے اس عزم میں کوئی شک و شبہ نہیں پایا جاتا کہ وہ ایک اچھا اور پائیدار و مستحکم سمجھوتے کا خواہاں ہے۔
حسین امیرعبداللہیان نے اس ٹیلیفونی گفتگو میں اٹلی اور فرانس کے وزرائے خارجہ کے ساتھ اپنے حالیہ مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو اپنے بار بار کے ناکام طریقے کو ترک کر کے غیر تعمیری رویے سے دستبردار اوردباؤ کے ہتھکنڈے کو چھوڑ کر پابندیوں کو اٹھانا ہو گا۔
ایران کے وزیر خارجہ نے ایران، روس اور ترکی کے سہ فریقی تہران سربراہی اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے خوراک اور توانائی کی سیکیورٹی کے بارے میں ایران کے موقف پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ انہوں نے یوکرین کے وزیر خارجہ کے ساتھ ہونے والی اپنی حالیہ گفتگو کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ یوکرینی گندم کی برآمدات خاص اہمیت کی حامل ہے۔
اس ٹیلی فونی گفتگو میں یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بورل نے بھی مذاکرات کے عمل میں ایران کے مثبت رویے کی قدردانی کرتے ہوئے موجودہ صورت حال میں فریقین کے نظریات پر غور کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔
جوزف بورل نے حتمی سمجھوتے کے حصول کے لئے بعض باقی ماندہ مسائل کے حل کے لئے ایران کی کوششوں کو سراہتے ہوئے تمام فریقوں کے ساتھ صلاح و مشورے کے ذریعے مذاکرات کے عمل کو تیز تر کرنے کے لئے اپنی اور اپنے نائـب انریکے مورا کی آمادگی پر زور دیا۔
یاد رہے کہ امریکہ کی بائیڈن حکومت نے جو ایٹمی معاہدے میں واپسی کی کوششوں کا دعوی کرتی رہی ہے، ابتک اس سلسلے میں کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا ہے۔ مذاکرات میں شریک تمام ملکوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ ایران کے خلاف غیر قانونی اور ظالمانہ پابندیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں اور مذاکرات جلد سے جلد اپنے انجام کو بھی پہنچانا چاہتے ہیں تاہم حتمی سمجھوتے کا حصول بعض مسائل و موضوعات میں امریکہ کے سیاسی فیصلوں پر ٹکا ہوا ہے۔
ویانا مذاکرات کا آٹھواں دور ستائیس دسمبر دو ہزار اکیس کو شروع ہوا تھا جو گیارہ مارچ دو ہزار بائیس کو یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بورل کی تجویز پر نئے مرحلے میں داخل ہوا اور تمام فریق اپنے اپنے ملکوں کو واپس لوٹ گئے جس کے بعد مذاکرات تعطل کا شکار ہوتے رہے۔
ویانا مذاکرات کا سلسلہ رکنے کی وجہ بھی یہ تھی کہ بائیڈن امریکا کی پچھلی حکومت پر اپنی تنقیدوں کے برخلاف ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی ناکام پالیسی پر ہی عمل پیرا ہیں اور اس پالیسی کو تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور بائیڈن انتظامیہ نے پابندیوں کے مکمل خاتمے اور ایران کو ٹھوس ضمانت دینے کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ کی ٹرمپ حکومت نے بین الاقوامی معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدہ ہونے کا فیصلہ اور اعلان کیا اور ایران پر مختلف قسم کی سخت ترین پابندیاں نافذ کر کے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تاکہ ایران کو جھکنے پر مجبور کیا جا سکے مگر اسے منھ کی کھانا پڑی اور اپنے مقصد کے حصول میں ناکامی اور اس کو بری طرح سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا اعلان کیا ہے کہ جوہری مسئلے میں ایران نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا اور اپنے وعدوں پر عمل کیا ہے اور یہ امریکہ ہے جو اس معاہدے سے نکلا ہے لہذا اسے ہی پابندیوں کو ختم اور اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے ساتھ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے میں واپس لوٹنا ہو گا اور اس کام کے لئے اس کے سیاسی فیصلے کی ضرورت ہے۔