"ملکہ دنیا سے رخصت ہو گئی اور بادشاہ تخت نشین ہو گیا اور اس نے اپنا ولیعہد متعارف کروا دیا۔" خود کو جمہوریت کا گہوارہ کہلوانے والے مغربی یورپ سے ایسی خبر سنائی دینا کچھ کچھ غیر متوقع دکھائی دیتا ہے۔ 2022ء میں ایسے وقت جب دنیا کے اکثر حصوں میں بادشاہت اور سلطنت والا نظام تقریباً بھلایا جا چکا ہے، برطانیہ جیسا ملک اب تک اس رجعت پسند سیاسی نظام کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اس ملک کا فرمانروا، برطانیہ کے علاوہ 15 دیگر ممالک کا حکمران بھی تصور کیا جاتا ہے۔ ملکہ برطانیہ کی وفات کے بعد اگلے دس دن تک پورا برطانیہ تقریباً جام ہو جائے گا۔ اگرچہ ملکہ کی آخری رسوم پر انجام پانے والے اخراجات منظرعام پر نہیں لائے جاتے لیکن ایک اندازے کے مطابق یہ رقم 6 ارب پاونڈ لے لگ بھگ ہے۔
یہ سنگین اخراجات ایسے وقت انجام پا رہے ہیں جب برطانیہ شدید قسم کے اقتصادی بحران کی لپیٹ میں ہے اور برطانوی حکمران عوام کو اقتصادی ریاضت کی ترغیب دلا رہے ہیں۔ کئی دن تک بینک بند رہیں گے اور برطانیہ کے دیگر اقتصادی مراکز بھی تعطیل کا شکار ہو جائیں گے۔ شاید اسی وجہ سے برطانوی اخبار انڈیپنڈینٹ نے ملکہ برطانیہ کی موت کو گذشتہ ستر برس کے دوران ملک کی معیشت کیلئے نقصان دہ ترین واقعہ قرار دیا ہے۔ البتہ برطانوی عوام پر تھونپے گئے بادشاہی اور سلطنتی نظام کے اخراجات صرف ملکہ کی آخری رسوم پر آنے والے اخراجات تک محدود نہیں ہیں بلکہ ہر سال شاہی خاندان کے اخراجات کیلئے برطانوی عوام سے 100 ملین پاونڈ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف سلطنتی نظام حکومت کی جانب سے عوام پر تھونپی گئی چیزیں صرف بھاری اخراجات تک محدود نہیں ہیں۔
برطانیہ کے نئے بادشاہ، چارلس، اب سے انگلیکن چرچ کے نئے سربراہ اور برطانوی مسلح افواج کے نئے چیف کمانڈر بھی ہوں گے۔ دولت مشترکہ کے اکثر ممالک جیسے کینیڈا اور آسٹریلیا میں مسلح افواج کو بادشاہ کی سلطنتی افواج کا نام دیا جائے گا۔ نوٹوں پر ان کی تصاویر لگائی جائیں گی اور نئے شہری بادشاہ سے وفاداری کا حلف اٹھا کر شہریت کا آغاز کریں گے۔ وہ برطانوی شہری جنہوں نے 1688ء میں انقلابی تحریک چلا کر بادشاہ کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش کی تھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ چار صدیوں بعد بھی برطانیہ پر ملکہ یا بادشاہ کی حکومت ہو گی۔ بادشاہی نظام حکومت جمہوریت کے اس بنیادی ترین اصول سے تضاد رکھتی ہے جس کے مطابق ایک معاشرے کے تمام افراد کو برابر قرار دیا جاتا ہے۔ برطانوی نظام حکومت میں ملکہ یا بادشاہ کو حد سے زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔
اگرچہ ملکہ یا بادشاہ کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں لیکن وہ کسی بھی قانون کا پابند نہیں ہوتا۔ ٹریفک قوانین کی پابندی اس کیلئے ضروری نہیں، اس کیلئے ٹیکس ادا کرنا ضروری نہیں، اسے پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ خاص اختیارات ہیں جو اسے عام شہریوں سے ممتاز کر کے جمہوری اصولوں کے سامنے سوالیہ نشان کھڑا کر دیتے ہیں۔ شاہ یا ملکہ وزیر کو معزول یا مقرر کر سکتا ہے، جنگ اور صلح کا اعلان کر سکتا ہے، عالمی معاہدے منعقد کر سکتا ہے، خارجہ پالیسی کا تعین کرتا ہے، چیف جسٹس کو مقرر کرتا ہے اور پارلیمنٹ میں منظور شدہ بل اس کے دستخط کے بعد قانون میں تبدیل ہوتے ہیں۔ اگرچہ عام طور پر برطانوی بادشاہ یا ملکہ کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اس کا عہدہ محض نمائشی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے حکومتی سیٹ اپ میں سب سے زیادہ قانونی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
دنیا کے اکثر ممالک میں ریاست کے سربراہ اور انتظامی امور کے سربراہ میں فرق ہوتا ہے۔ ریاست کا سربراہ تمام مسلح افواج کا چیف کمانڈر ہوتا ہے اور پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے بل قانون بننے کیلئے اس کے دستخط کے محتاج ہوتے ہیں جبکہ اسے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوتا ہے۔ جمہوری نظام حکومت کے حامل ممالک میں ریاست کا سربراہ بھی عوام کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جرمنی میں جہاں پارلیمانی نظام حکومت نافذ ہے، صدر ریاست کا سربراہ تصور کیا جاتا ہے اور اس کا چناو الیکشن کے ذریعے ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں عوام ریاست کے سربراہ پر براہ راست نظر رکھ سکتے ہیں اور کچھ عرصے بعد اسے تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ایک بادشاہی یا سلطنتی نظام حکومت میں ریاست کا سربراہ ممکن ہے ملکہ الزبتھ دوم کی طرح ستر سال تک حکومت کرتا رہے۔
برطانیہ میں قومی علامت جیسے عناوین کا غلط استعمال اس بات کا باعث بنا ہے کہ وہاں انتہائی فرسودہ نظام حکومت نافذ ہے۔ ایسا نظام حکومت جس میں اکیسویں صدی کے باوجود خون اور وراثت کو فرمانروائی کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ علامت، قومی سیاست کا آدھا حصہ تشکیل دیتی ہے۔ قومی ترانہ، قومی پرچم اور قومی نعرے سب علامتیں ہیں جو کسی بھی سیاسی نظام کا اہم حصہ تشکیل دیتے ہیں۔ جمہوری نظام کا یہ اصول ہے کہ یہ علامات کسی موروثی نظام پر منحصر نہیں ہونی چاہئیں۔ برطانوی نظام حکومت کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک تدوین شدہ آئین موجود نہیں ہے اور تمام قوانین کی بنیاد بادشاہ یا ملکہ کا طرز عمل قرار پاتا ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں بادشاہ یا ملکہ اپنے نامحدود اختیارات بروئے کار لا سکتا ہے جیسا کہ یورپی تاریخ میں اس کی متعدد مثالیں قابل مشاہدہ ہیں۔ لہذا برطانوی نظام حکومت دراصل جمہوریت کی نقاب اوڑھے ایک فرسودہ سلطنتی نظام ہے
تحریر: حسین مہدی تبار