مغربی میڈیا کا افسوسناک رویہ

Rate this item
(0 votes)
مغربی میڈیا کا افسوسناک رویہ

افغانستان میں دہشتگردوں کے حملے میں 43 طالبات کی شہادت پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ افغانستان کے مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعہ کے روز کابل کے کاج تعلیمی سینٹر میں ہونے والے دہشت گردانہ خودکش دھماکے میں شہید ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر انچاس ہوگئی ہے، جبکہ 100 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں تینتالیس لڑکیاں اور دو لڑکے شامل ہیں جبکہ چار افراد کی شناخت ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ جس کی وجہ سے شہداء کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ ابھی تک کسی بھی گروہ نے اس دہشت گردانہ بم دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ گذشتہ مہینوں کے دوران افغانستان کے مختلف علاقوں خاص طور پر کابل میں دہشت گردانہ حملوں اور دھماکوں میں تیزی آئی ہے اور طالبان انتظامیہ سکیورٹی برقرار کرنے کے اپنے تمام دعوؤں کے باوجود اس طرح کے حملوں کو نہیں روک سکی ہے۔ کابل میں زیادہ تر دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری داعش دہشت گرد گروہ نے قبول کی ہے، جبکہ طالبان اس گروہ کو افغانستان کے لئے خطرہ نہیں سمجھتے۔

ادھر افغان طالب علموں کی خواتین اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد نے کابل کے مغرب میں دشت برچی کے علاقے میں ایک مظاہرہ کرکے ہزارہ برادری کے خلاف ٹارگٹڈ دہشت گردانہ حملوں کے خاتمے اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ طالبان حکومت کی افواج نے گولیاں مار کر مظاہروں کو کچل دیا۔ کئی صحافی بھی موقع سے بھاگ گئے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ انسانی حقوق کے نام نہاد محافظوں بالخصوص خواتین نے اس بھیانک جرم کے خلاف خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس کا شکار زیادہ تر لڑکیاں ہیں۔ بے شک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا جو بیس سال سے زائد عرصے سے افغانستان میں جرائم کا ارتکاب کرتے رہے ہیں، یہ اس کا نتیجہ ہے۔ سیاسی امور کے ایک افغان ماہر سید عیسیٰ حسینی کہتے ہیں: “امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے جرائم اور دہشت گردی معمول کی بات ہے۔ خیال رہے کہ امتحان کے دوران طالبات کا قتل امریکی ایجنٹوں نے کیا تھا۔ اس لیے امریکہ کا عدم ردعمل اتنا حیران کن نہیں ہے۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی پامالی کے بارے میں امریکہ کی خاموشی صرف افغانستان تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جیسا کہ یوکرین سے خواتین اور لڑکیوں کی یورپی ممالک میں سمگلنگ، جرائم اور عصمت دری کے بارے میں امریکہ کی بے حسی ہے۔ شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق خواتین کے جنسی استحصال سے سالانہ منافع 7 ارب یورو بنتا ہے اور یوکرین سمیت دنیا کے مختلف حصوں سے اسمگل ہونے والی لاکھوں خواتین اور لڑکیوں سے حاصل ہونے والا منافع مغربی ممالک کے سرمایہ داروں کی جیبوں میں جاتا ہے۔ سیاسی امور کے ماہر سوروش امیری کہتے ہیں: “دنیا کے مختلف خطوں میں خواتین مغربی منافع خوروں کی لالچ کا شکار ہیں۔ جنسی استحصال کے بھرپور منافع نے اس سمت میں ایک صنعت کو جنم دیا ہے اور خواتین کے حقوق کے دفاع کے بارے میں ان کا کوئی بھی دعویٰ جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔”

بہرحال افغان لڑکیوں اور خواتین کا اپنی حفاظت کے لیے مظاہرہ ان مظلوموں کی فریاد ہے، جو تاریخی طور پر افغانستان میں حکومتی رویوں اور مختلف گروہوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار رہی ہیں، اس لیے عوام بالخصوص افغان خواتین، طالبان گروپ سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ عوام کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ضروری اقدامات کرتے ہوئے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں۔ افغان عوام کے مخالفین کی طرف سے نسلی اور مذہبی تفریق پیدا کرنے کی کوششوں کے پیش نظر یہ مسئلہ اہم اور مزید قابل توجہ ہے۔

واضح رہے کہ خواتین کے حقوق کے بارے میں مغربی میڈیا کے بیانات زیادہ تر بیان بازی اور سیاسی مقاصد کے لیے ہوتے ہیں اور ان ممالک کا میڈیا دوہرا معیار اپناتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں خواتین کے خلاف جرائم، افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پر حملوں کے ساتھ ساتھ یوکرین میں بے گھر ہونے والی خواتین کے مصائب اور ان کے جنسی استحصال کو میڈیا میں قابل ذکر کوریج نہیں ملتی اور ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ وہ  ممالک جو مغرب کے اتحادی نہیں، وہاں خواتین کے معاملے کو سیاسی نظام پر کسی دباؤ کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ایران میں حالیہ صورت حال مغربی میڈیا کے دوہرے معیار کی ایک مثال ہے۔ ایران میں مرنے والی مہسا امینی اور افغانستان میں جاں بحق ہونے والی بیسیوں لڑکیوں کے بارے میں مغربی میڈیا کا منافقانہ رویہ روز روشن کی طرح واضح ہے۔

 

 تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

Read 217 times