افغانستان میں خون کی ہولی اور عالمی بے حسی

Rate this item
(0 votes)
افغانستان میں خون کی ہولی اور عالمی بے حسی

افغانستان کے قصبے دشت برچی میں ہولناک دہشت گردانہ حملے کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ اس حملے میں 35 نوجوان بچے اور بچیاں شہید ہو گئی تھیں۔ یہ بچے اور بچیاں کاج تعلیمی مرکز میں یونیورسٹی کا داخلہ امتحان دینے کی غرض سے آئے تھے۔ البتہ اس سے پہلے بھی سیدالشہداء گرلز کالج اور کئی دیگر اسپتال اور تعلیمی مراکز ایسی بربریت کا شکار ہو چکے تھے۔ اسی طرح کئی مساجد اور امامبارگاہوں کو بھی انسان سوز دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ان تمام دہشت گردانہ اقدامات میں شہید ہونے والے افراد کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع ہزارہ برادری سے ہے۔ دشت برچی میں رونما ہونے والا واقعہ تازہ ترین سانحہ ہے۔ یہ دہشت گردانہ حملہ کرنے والا صرف ایک دہشت گرد تھا جس نے نہتے بچوں اور بچیوں پر فائرنگ کرنے کے بعد خودکش دھماکہ کر دیا۔
 
جمعہ کے روز سے ہی جب یہ حملہ انجام پایا ہے، عوام کی جانب سے وسیع ردعمل سامنے آیا ہے۔ اس حملے کے بعد ایک بار پھر "ہزارہ برادری کی نسل کشی" کا ایشو میڈیا میں سامنے آ گیا ہے۔ افغانستان میں مختلف قومی اور مذہبی گروہوں کی جانب سے شیعہ اقلیت کے حقوق کی پامالی اور ان پر دھونس جمانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ان دنوں افغانستان میں جو حالات حکمفرما ہیں ان کی روشنی میں "ہزارہ کشی" کی اصطلاح رائج ہو چکی ہے۔ ان سب کا اشارہ ہزارہ برادری کو تحفظ فراہم کرنے میں موجودہ افغان حکومت کی ناکامی کی جانب ہے۔ اگرچہ دشت برچی میں رونما ہونے والے حالیہ خودکش دھماکے کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی لیکن ماضی میں اسی قصبے میں انجام پانے والے دیگر دہشت گردانہ اقدامات کی ذمہ داری تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی شاخ امارت خراسان قبول کر چکی ہے۔
 
دشت برچی میں کاج تعلیمی مرکز پر ہونے والے اس خودکش دھماکے میں 82 بچے اور بچیاں زخمی بھی ہو گئی ہیں جن میں سے زیادہ تعداد بچیوں کی ہے۔ خون میں لت پت ان بچیوں کی تصاویر اور شہید ہونے والے بچوں اور بچیوں کی خون آلود کتابوں اور کاپیوں کی تصاویر نے اس واقعے کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی سوگوار فضا حاکم ہے لیکن افغانستان کی خواتین نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا اور سڑکوں پر نکل کر احتجاج بھی کر رہی ہیں۔ گذشتہ ہفتے کابل، ہرات اور مزار شریف سمیت افغانستان کے مختلف شہروں میں خواتین کی ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے منعقد ہوئے ہیں۔ مظاہرین نے منظم منصوبہ بندی کے ذریعے ایک ہی قوم کے افراد کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنانے کو نسل کشی قرار دیا اور اس کی شدید مذمت کی ہے۔
 
افغانستان پر طالبان کے برسراقتدار آئے ایک برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور اس تمام عرصے میں لڑکیوں کو کالج لیول پر تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسی طرح لڑکیوں کے پرائمری اسکولوں کی تعداد بھی بہت کم کر دی گئی ہے جبکہ یونیورسٹی میں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کو علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح سماجی سطح پر بھی خواتین کی موجودگی اور فعالیت پر زیادہ سے زیادہ پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ مزید برآں، گذشتہ چند دنوں سے افغانستان کے مختلف شہروں میں کاج تعلیمی مرکز پر دہشت گردانہ حملے کے خلاف نکلنے والی خواتین کی ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں پر بھی طالبان نے حملہ کیا ہے۔ اسی طرح طالبان نے رپورٹرز کو ان مظاہروں کی کوریج دینے کی اجازت بھی نہیں دی۔
 
حملے میں شہید ہونے والی ایک بچی کی والدہ نے الجزیرہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس کی بچی حال ہی میں مارشل آرٹس اور انگلش کی کلاسز میں شرکت کرنا شروع ہوئی تھی۔ ایک اور شہید ہونے والی بچی کی کاپی میں لکھا ہوا تھا کہ وہ ناول نگار بننے کا شوق رکھتی ہے۔ حملے میں زخمی ہونے والی 17 سالہ بچی مریم فاروز کہتی ہے: "میں ریاضی کا ایک سوال حل کر رہی تھی کہ اچانک فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ ہم سب اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور اتنے میں ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ ہم نے قلم اور کاپیاں چھوڑ کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی۔ ہم سب اپنی جان بچانے کی کوشش میں تھے کہ اتنے میں خودکش دھماکہ ہو گیا۔"
 
دوسری طرف عالمی سطح پر بھی افغانستان میں جاری اس نسل کشی پر مجرمانہ خاموشی اور بے حسی پائی جاتی ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی نظر میں افغانستان میں کھیلی جانے والی اس خون کی ہولی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ افغانستان کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر رچرڈ بینٹ نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہزارہ خواتین کے تعلیمی مراکز پر حملے بند ہونے چاہئیں۔ لیکن اس حد تک موقف کا اظہار قابل قبول اور کافی نہیں ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت بننے کے بعد سے اب تک ہزارہ برادری سمیت اہل تشیع شہریوں پر متعدد دہشت گردانہ حملے ہو چکے ہیں جن میں سے صرف 13 کی ذمہ داری داعش کی شاخ امارت خراسان نے قبول کی ہے۔ مجموعی طور پر ان حملوں میں 700 افراد شہید اور زخمی ہوئے ہیں جبکہ عالمی سطح پر بہت کم ردعمل سامنے آیا ہے۔

تحریر: فاطمہ کریم خان

Read 280 times