اب بھی قاسم سلیمانی کا نام دشمنوں کے دل میں رعب اور وحشت ڈال دیتا ہے۔ وہ تزویراتی منصوبہ بندی، بصیرت اور سوچ و ایمان کے ذریعے دشمنوں کا مقابلہ کرنے جیسے اصولوں کی بنیاد پر "مکتب سلیمانی" ایجاد کرنے میں کامیاب رہے۔ دشمنوں کو نابود کرنے والا شہر کے دور ترین حصے سے آیا۔ وہ مکتب امام خمینی رح کے نور کا ایک حصہ تھا جو ظالموں پر کسی قسم کا رحم یا نرمی نہیں دکھاتا تھا۔ اس کا دل حیدری شجاعت سے لبریز تھا۔ وہ دہشت گردوں کے مقابل ڈٹ گیا اور انہیں نیست و نابود کر ڈالا۔ اس نے حسینی جذبے سے غاصب صیہونی رژیم کے مقابلے میں مزاحمت کی اور ناقابل شکست ہونے کی دعویدار فوج کے مقابلے میں فتح یاب ہوا۔ آج جنوبی لبنان اور اس کے جنوب میں واقع مقبوضہ فلسطین، شام اور عراق اس کی کامیابیوں سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔
شہید قاسم سلیمانی دنیا بھر سے ہزاروں جوانوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان جوانوں نے ان کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ان کی تعلیمات کو عملی شکل عطا کی۔ وہ ان تمام جوانوں کے رہبر اور رول ماڈل تھے۔ شہید قاسم سلیمانی ایک شجاع ہیرو اور عظیم لیڈر تھے جنہوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں حق کا پرچم لہرایا۔ جولائی 2006ء میں غاصب صیہونی رژیم کی جارحیت کے دوران لبنان کے جنوبی گاوں اور محلے ان کی جدوجہد کے گواہ ہیں۔ شہید قاسم سلیمانی نے اپنی زندگی خطرے میں ڈال دی۔ وہ فتح کے معمار اور جنوبی لبنان کی واضح کامیابی کے بانی تھے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ ان کے بارے میں کہتے ہیں: "وہ مصیبت کے وقت حاضر ہونے والا شخص تھا۔ مشکل دنوں میں، جیسے 2006ء میں 33 روزہ جنگ تموز کے دوران وہ تہران سے دمشق آئے۔"
سید حسن نصراللہ مزید کہتے ہیں: "انہوں نے ہم سے رابطہ کیا اور کہنے لگےکہ میں جنوبی حصے میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ ایسا ممکن نہیں ہے۔ تمام پل تباہ ہو چکے ہیں، سڑکیں صیہونی بمباری کے نتیجے میں بند ہو چکی ہیں، صورتحال مکمل طور پر جنگی ہے اور ضاحیہ یا بیروت پہنچنا ناممکن ہے۔ لیکن انہوں نے بہت اصرار کیا اور کہا کہ اگر آپ میرے لئے گاڑی نہیں بھیجتے تب بھی میں آپ کے پاس آ جاوں گا۔ انہوں نے اصرار کیا اور آخرکار ضاحیہ پہنچ گئے اور کافی عرصہ ہمارے پاس رہے۔" شام میں، اس ملک کے خلاف عالمی جنگ کے دوران، شہید قاسم سلیمانی نے جنگ کیلئے رابطہ مہم چلانے، جنگ کی مدیریت کرنے اور پشت پناہی کرنے کیلئے اعلی درجہ کی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ وہ ہمیشہ فرنٹ لائن پر تھے اور انہوں نے دفاعی جنگ کی حتمی فتح تک قیادت کی۔ ہم حتی روس میں انہیں دیکھتے ہیں۔
وہ اڑھائی گھنٹے تک روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کرتے ہیں اور انہیں اسلامی مزاحمتی بلاک کی اسٹریٹجی سے آگاہ کرتے ہیں۔ یہ وہ بات ہے جو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سابق چیف کمانڈر اور آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر اعلی رحیم صفوی نے بتائی ہے۔ اسی طرح عراق کے علاقے کردستان میں شہید قاسم سلیمانی کے عظیم کارناموں کا ذکر ضروری ہے۔ انہوں نے وہاں داعش کو شکست دی اور کردستان انتظامیہ نے اس بارے میں کہا کہ اگر قاسم سلیمانی نہ ہوتے تو کردستان داعش کے قبضے میں چلا جاتا۔ جب ہم یہ تمام واقعات بیان کرتے ہیں تو ہمیں ماضی کو حال سے جوڑنا چاہئے اور یہ بھی بیان کرنا چاہئے کہ شہید قاسم سلیمانی نے کس طرح دسمبر 2017ء میں رہبر معظم انقلاب کو پیغام دیا کہ ہم نے شام اور عراق میں داعش کو شکست دے دی ہے۔
اور کس طرح اسی وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں نے ایران میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آخرکار شہید قاسم کی دعا، نیک شہداء کے درجات میں بلندی اور رہبر معظم انقلاب کی آگاہی کی بدولت ایران دشمنوں کی تمام سازشوں پر غالب آ گیا۔ جب ہم شہید قاسم سلیمانی کے شجاعانہ اقدامات کا ذکر کرتے ہیں تو کیسے فلسطین سے ان کے عشق اور فلسطین کی آزادی کیلئے ان کی قربانیوں کو نظرانداز کر سکتے ہیں؟ تمام مجاہدین اور دنیا کے تمام حریت پسند انسانوں نے ان قربانیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ فلسطین میں مزاحمتی کمیٹیوں کے کمانڈر محمد البریم ابومجاہد کہتے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی "امریکی صیہونی استکبار" کے خلاف جدوجہد اور مقابلے کی علامت تھے۔ وہ دنیا کے تمام آزادی پسند انسانوں کیلئے شجاعت اور فتح کی علامت ہیں۔ ابومجاہد مزید کہتے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی نے صیہونی رژیم کی بقا کیلئے عظیم چیلنج ایجاد کیا۔
اور وہ خطے پر قبضے اور قدرتی ذخائر کی لوٹ مار پر مبنی امریکی عزائم کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ شہید قاسم سلیمانی نے مقبوضہ فلسطین میں مجاہدین تک اسلحہ پہنچانے اور اسلامی مزاحمت کی کامیابی کیلئے حکمت عملی تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ نومبر 2019ء میں دہشت گردی کو شکست دینے میں ان کی عظیم خدمات کی خاطر انہیں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا اعلی ترین میڈل یعنی ذوالفقار میڈل عطا کیا گیا۔ کیا وہ ایسا فرشتہ نہیں تھے جو ہمارے پاس آتا جاتا تھا؟ جیسا کہ امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے ان کی قبر میں رکھنے کیلئے اپنی عبا، جس میں انہوں نے چودہ سال تک نماز شب ادا کی تھی، اپنی ذاتی انگوٹھی، امام حسین علیہ السلام کا پرچم اور شہداء کی جانب سے خط عطا کیا اور ان کے بارے میں فرمایا: شہید قاسم سلیمانی انسان کے روپ میں ملت تھا اور وہ عالمی مزاحمتی بلاک کے شہداء کا سردار ہے۔
تحریر: نسرین نجم (عرب تجزیہ نگار)