سردار قاسم سلیمانی شہید صرف 19 سال کی عمر میں دوسرے بہت سے نوجوانوں کی طرح، انقلابیوں اور سپاہ کی طرف راغب ہوئے اور فوج میں ان کا داخلہ ان کی شہرت اور ترقی کی پہلی سیڑھی تھی۔ ان کی زندگی کا پہلا مشن کرمان میں مقیم طیاروں کی حفاظت کرنا تھا۔ بعد میں وہ تربیتی بیرکوں کے کمانڈر بنے اور اسی سال ایران عراق جنگ میں شرکت کی۔ ایران عراق جنگ کے پہلے مشن میں انہیں ثاراللہ فوج کی کمانڈ سونپی گئی۔ جو ایک اہم فوج بن گئی اور جنگ کے خاتمے پر اس کے کمانڈر قاسم سلیمانی تھے۔ سابق کمانڈر محمد علی جعفری کے مطابق شروع میں وہ زیادہ معروف نہیں تھے۔ تاہم، جنگ کے اختتام تک، وہ ایک اعلیٰ درجے کے کمانڈر بن چکے تھے۔ جنگ کے بعد، 8 سال تک انھوں نے انسداد منشیات مشن کی سربراہی کی۔ مگر سب سے اہم مشن جو ان کی زندگی کے آخر تک جاری رہا۔ رہبر معظم کے فرمان کے مطابق انھیں قدس فورس کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ قدس فورس سپاہ کی بیرون ملک شاخ تھی، جو قاسم سلیمانی کے دور میں ایک بہت بڑی سکیورٹی، ثقافتی اور اقتصادی فوجی تنظیم بن گئی، جس کے تحت شام، عراق، لبنان، یمن، افغانستان اور فلسطین میں درجنوں ملیشیا گروپس بنے۔ پچھلی دہائی میں قدس فورس کی سرگرمیوں کا سب سے اہم پہلو سیاسی سرگرمیاں تھیں، قاسم سلیمانی کی ترقی اور شہرت ان کے کردار اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا نتیجہ تھی۔
مشرق وسطیٰ میں سیاسی کشیدگی اور شام میں بڑی علاقائی جنگ کے دوران قاسم سلیمانی کو خطے میں آیت اللہ خامنہ ای کے وزیر خارجہ کے طور پر جانا جانے لگا۔ قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی نے خود کو دنیا میں اسرائیل کے نمبر ایک دشمن کے طور پر متعارف کرایا، ایرانی سپاہ کی قدس فورس کے کمانڈر کی حیثیت سے امریکی حکومت کیخلاف اپنے طنز کا دائرہ بڑھا دیا۔ وہ شام اور عراق کی جنگوں میں ایران کے پہلے کمانڈر تھے، انہوں نے داعش کے کیس کو ہینڈل کیا اور ان کا خاتمہ کیا۔ عراق میں اماموں کے مزارات کی تعمیر نو کی صورت میں عراق اور ایران کے درمیان اربوں ڈالر کے بڑے اقتصادی اور تعمیراتی منصوبوں پر کام کیا، عراق کے بحران کو حل کرنیوالے نظام میں اہم ذمہ داری ادا کی۔ کردستان کی آزادی ہو، عراقی وزرائے اعظم کی تقرری اور خطے کے دوسرے بہت سے اہم واقعات اور فیصلے، یہ سب ان کے نام سے جڑے ہوئے تھے اور ان سب چیزوں کی وجہ سے وہ پچھلے چالیس سالوں میں ایرانی فورس کے سب سے اہم کمانڈر بن چکے تھے۔ انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز "ذوالفقار" سے نوازا گیا۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد جنرل سلیمانی پہلے شخص ہیں، جنہوں نے یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔
قاسم سلیمانی کو بین الاقوامی شہرت دینے والے کردار نے انہیں ایک کرشماتی شخصیت بنا دیا تھا۔ قاسم سلیمانی کی تصویر ٹی شرٹس سے لے کر کمپیوٹر گیمز تک سب سے اوپر تھی اور ایرانی فورس کے سب سے مقبول چہرے کے طور پر ان کا نام سرفہرست تھا۔ سپاہ قدس کے کمانڈر افغانستان میں بھی فعال تھے۔ بعض مجاہدین کے بقول، وہ بارہا طالبان اور القاعدہ سے جنگ کے سلسلہ میں افغانستان کا سفر کرتے تھے۔ اسی طرح سے انہوں نے داخلی جنگ کے بعد افغانستان کی باز سازی کے سلسلہ میں بہت سے اقدام انجام دیئے ہیں۔ افغان فوجیوں کے مطابق ان کی شخصیت میں ایک اپنا پن تھا۔ وہ افغان اتحادیوں کیساتھ احترام سے پیش آتے تھے اور بلا تکلف ان کے دسترخوان پر بیٹھ جاتے تھے۔ انہیں کردستان کی داخلی جنگ، ایران عراق جنگ اور ایران و افغان سرحدوں پر منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں سے مقابلے کا بڑا تجربہ تھا۔ اسرائیل کے لبنان پر حملے اور 33 روزہ جنگ کے دوران قاسم سلیمانی بیروت میں حزب اللہ کے مرکزی کمانڈ کے طور پر کنٹرول روم میں موجود رہے۔
قاسم سلیمانی عراق اور شام میں داعش کیخلاف برسر پیکار رہے۔ ایران نے مشرق وسطیٰ میں امن و امان کی بحالی کیلئے اس گروہ کے ساتھ مقابلہ شروع کیا اور داعش کو عراق سے نکال باہر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 21 نومبر سنہ 2017ء کو جنرل قاسم سلیمانی نے خط میں آیت اللہ خامنہ ای کی خدمت میں داعش کی نابودی کا اعلان کیا۔ جو ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔ سنہ 2019ء میں امریکی اخبار فارن پالیسی نے اپنے ایک خصوصی شمارہ میں، جس میں وہ ہر سال دنیا بھر کے 100 بہترین دانشمندوں کے نام تعارف کے طور پر شائع کرتا ہے، جنرل قاسم سلیمانی کا نام دنیا کے 10 منتخب دفاعی امنیتی مفکروں میں شامل کیا۔ قاسم سلیمانی کے اوپر کئی بار جان لیوا حملے کئے گئے۔ پہلی بار سنہ 1982ء میں ایک ڈاکٹر نے مشہد شہر میں ان پر جان لیوا حملہ کیا۔ اسی طرح کرمان شہر میں قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانے والے افراد کو گرفتار کیا گیا اور بالآخر جنرل قاسم سلیمانی نے 3 جنوری 2020ء کو ایک دہشت گردانہ امریکی ڈرون حملے میں شہادت پائی۔ یہ حملہ ان کی گاڑی پر اس وقت کیا گیا، جب وہ بغداد ایئرپورٹ سے نکل رہے تھے۔ اس حملہ میں ان کیساتھ عراق کی رضاکار فورس کے نائب ابو مہدی المہندس سمیت بعض دیگر افراد بھی شہید ہوئے۔ اس حملے کے کچھ دیر بعد امریکی وزارت دفاع نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ قاسم سلیمانی کی گاڑی پر حملہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حکم سے کیا گیا ہے۔
آپ کی شہادت پر دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج بن گئے۔ مختلف ممالک میں مظاہرے و احتجاج ہوئے اور ان کی یاد اور تعزیت میں ایران کے علاوہ پوری دنیا میں پروگرامز اور تعزیتی جلسے منعقد ہوئے۔ مختلف ممالک کی سیاسی اور مذہبی شخصیات نے ان کی شہادت پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تعزیتی پیغامات دیئے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے تعزیتی پیغام میں آپ کو مقاومتی بلاک کی بین الاقوامی شخصیت قرار دیا اور آپ کی شہادت کی مناسبت سے ایران میں تین دن سوگ کا اعلان کیا۔ اسی طرح مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ نے بھی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ کے اس اقدام کی شدید مذمت کی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر، اگنیس کالامرڈ۔(Agnès Callamard) نے قاسم سلیمانی اور ابو مہدی کے قتل کو غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ امریکہ کے مورخ ایروند ابراہمیان (Ervand Abrahamian) نے کہا کہ کہ اس سانحے سے پہلے ایرانی، امریکہ کو ایک سازش کار حکومت سمجھتے تھے، اس حادثے کے بعد سے ایک دہشت گرد حکومت بھی سمجھیں گے۔
قاسم سلیمانی کی شہادت کے نتیجے میں بعض اثرات و نتائج سامنے آئے:
قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت کے بعد، عراق کی سیاسی پارٹیوں اور عوام نے امریکہ کی فوج کو عراق سے نکالنے کا مطالبہ کر دیا اور عراقی پارلیمنٹ نے 5 جنوری 2020ء میں ایک فوری جلسہ بلایا اور اس میں عراق سے امریکہ کی فوج کے انخلاء کا بل پاس کیا۔ 8 جنوری 2020ء کو ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے قاسم سلیمانی کے قتل کے بدلے میں امریکی فوج کے عراق میں عین الاسد ائیربیس پر میزائلوں سے حملہ کیا اور امریکہ کے سپر پاور کے دعوے کو ایران نے چکنا چور کر دیا، جب اس کے جدید ترین آلات ایرانی میزائل سے بے خبر اور ان کی نشاندہی کرنے میں بھی ناکام رہ گئے تھے۔ جس سے پوری دنیا میں امریکہ کی خوب جگ ہنشائی ہوئی۔ جمہوری اسلامی ایران کے کیلینڈر میں اس دن کو روز جہانی مقاومت کے عنوان سے ثبت کیا گیا ہے۔
قاسم سلیمانی شہید ساری زندگی حضرت زہراء سلام اللہ علیھا سے توسل کرتے رہے اور ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔ اسی لئے ان کی شہادت کے ایام اور تدفین بھی ایام فاطمیہ سے جُڑ گئی۔ یہ ان کی عظیم شہادت کیلئے سعادت اور قبولیت کی بات ہے۔ قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کی تاریخی تشیع جنازہ عراق کی سیاسی و مذہبی شخصیات اور عوام کی کثیر تعداد کی موجودگی میں عراق کے شہر بغداد، کربلا اور نجف میں ہوئی۔ اس کے بعد شہداء کے جنازے ایران منتقل ہوئے اور اہواز، مشہد، تہران اور قم میں تشییع جنازہ ہوئی۔ تہران میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور دیگر شہداء کے جنازے پر نماز جنازہ پڑھائی اور قاسم سلیمانی شہید کے تشییع جنازہ کو امام خمینی کے بعد تاریخ کا سب سے بڑا تشییع جنازہ قرار دیا۔ سپاہ پاسدار انقلاب اسلامی کے ترجمان کے مطابق 25 ملین لوگوں نے تشییع جنازہ میں شرکت کی۔
یوں شہید سردار قاسم سلیمانی کیساتھ ایک مسلسل جدوجہد کا عہد تمام ہوا، لیکن ان کا کردار ہمیشہ کیلئے زندہ رہ گیا ہے۔ میرے خیال میں وہ اگر زندہ رہتے تو جو ایک کام باقی رہ گیا تھا، وہ بھی پورا ہو جانا تھا اور وہ تھا قدس کی آزادی۔ خدا کو یہی منظور تھا۔ لیکن بحیثیت مسلمان میرا یہ عقیدہ ہے کہ قدس کی آزادی کیلئے ان شاء اللہ وہ کسی اور سلیمانی کو جلد ہی بھیج دے گا۔ قاسم سلیمانی ایک ایسا مسلمان مجاہد لیڈر تھا، جس کے نام سے دشمن اسلام لرز اٹھتا تھا۔ عالم اسلام کے دشمنوں نے اسے دہشت گرد قرار دیا، لیکن وہ عالم اسلام کا حقیقی شہید او ہیرو تھا۔ آج دشمن ان کے نام والی پوسٹ کو سوشل میڈیا سے تو ہٹا سکتا ہے، بلاک کرسکتا ہے، لیکن قاسم سلیمانی کے کردار اور شخصیت نے عالم اسلام کے دلوں میں جو گھر بنایا ہے، اسے کبھی بھی نہیں مٹا سکتا۔ کبھی بھی نہیں۔
تحریر: شبیر احمد شگری