مہندس فارسی میں انجینئر کو کہتے ہیں۔ انہوں نے بغداد کے پولی ٹیکنیک کالج سے سول انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور اسی سبب وہ مہندس یعنی انجینئر کے نام سے معروف تھے۔ ابو مہدی ان کا لقب تھا۔ ان کا اصل نام جمال جعفر محمد اور ان کا خاندانی نام آل ابراہیم تھا۔ یوں ان کا مکمل نام جمال جعفر محمد آل ابراہیم المعروف ابو مہدی مہندس ہے۔ وہ عراقی شہری تھے اور ایران میں انہیں جمال ابراہیمی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔
شہید ابو مہدی 1953ء میں عراق کے شہر بصرہ میں پیدا ہوئے۔ شہریت کے لحاظ سے ان کی والدہ ایرانی جبکہ ان کے والد عراقی تھے۔ 1977ء میں انہوں نے بغداد کے پولی ٹیکنیک کالج سے سول انجینرنگ میں ڈگری مکمل کی۔ 60 کی دہائی میں عراق میں دینی مرجعیت خصوصاً آیت اللہ محمد باقر الصدر کی قیادت میں حزب الدعوۃ الاسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ حزب الدعوۃ الاسلامیہ عرب دنیا میں عرب قوم پرستی کے مقابلے میں اخوان المسلمین کے بعد دوسری اسلامی تحریک تھی، جو عرب دنیا کے مسائل کو اسلامی تناظر میں دیکھتی تھیں۔
شہید محمد باقر الصدر کے نزدیک اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس کا سیاسی، معاشی، اخلاقی اور سماجی نظام عرب دنیا سمیت عالم اسلام کے مسائل کا واحد حل ہے۔ شہید ابو مہدی نے اپنی سماجی فعالیت کا آغاز شہید محمد باقر الصدر کی قیادت میں تشکیل پانے والی اس اسلامی تحریک میں شمولیت کے ساتھ کیا اور یہ اس وقت کی بات ہے، جب آپ بغداد میں زیر تعلیم تھے۔ 80 کی دہائی میں عراق پر حاکم بعث پارٹی نے جب حزب الدعوۃ الاسلامیہ کے عوام میں اثر و رسوخ سے خائف ہو کر عرب دنیا کی اس اہم اسلامی تحریک کو سرکوب کرنے کی ٹھانی اور حزب الدعوہ کی قیادت کے خلاف کریک ڈاون شروع کیا تو پہلے مرحلے میں حزب الدعوہ کی قیادت کو گرفتار کرکے پھانسی دے دی گئی۔ 1975ء میں حزب الدعوۃ الاسلامیه کے درجنوں قائدین کو سزائے موت دے دی گئی۔ دوسرے مرحلے میں حزب الدعوہ کے کارکنوں کو پکڑ کر عقوبت خانوں میں بند کیا اور تختہ دار پر لٹکایا جانے لگا۔ شہید ابو مہدی اس زمانے کے بارے میں کہتے ہیں 1980ء تک حزب الدعوۃ الاسلامیہ سے وابستہ میرے 95 فیصد دوستوں کو سزائے موت ہوچکی تھی۔
1980ء میں جب بعثی رجیم نے محمد باقر الصدر کو ان کے گھر سے گرفتار کرکے شہید کر دیا تو شہید ابو مہدی مہندس عراق سے کویت چلے گئے، جہاں انہوں نے اسلامی مزاحمت کے عظیم کردار شہید مصطفیٰ بدرالدین کے ساتھ ملکر ظلم و استبداد کے خلاف جدوجہد کا نئے سرے سے آغاز کیا۔ کویت میں قائم امریکی اور فرانسوی سفارت خانوں پر بمب حملے ہوئے تو کویت میں مقیم مصطفیٰ بدرالدین سمیت متعدد عراقی مہاجرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ شہید ابو مہدی کویت سے ایران منتقل ہوگئے۔ بعدازاں ایک کویتی عدالت نے شہید ابو مہدی کی غیر موجودگی میں انہیں ان سفارت خانوں پر حملے کے الزام میں سزائے موت بھی سنائی تھی، جس کے بارے خود شہید ابو مہدی کا کہنا ہے کہ وہ کویتی سرزمین پر امریکہ مخالف کسی مسلح کارروائی میں ہرگز شریک نہیں تھے۔ ایران میں قیام کے دوران شہید ابو مہدی نے اعلیٰ تعلیم مکمل کر لی۔ انہوں نے بین الاقوامی تعلقات میں پہلے ایم فل تو بعدازاں پی ایچ ڈی مکمل کی۔
پی ایچ ڈی ڈاکٹر بن جانے کے باوجود شہید ابو مہدی کو تا دمِ شہادت انجینئر (مہندس) کے لقب سے ہی جانا جاتا رہا۔ ایران میں قیام کے دوران شہید ابو مہدی ایران میں مقیم عراقی حریت پسندوں کی اہم سیاسی جماعت مجلس اعلاء کے رکن بھی رہے۔ مجلس اعلاء نے بعد میں عراقی سیاست میں بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ نوے کی دہائی میں عراق میں بعثی رجیم کے مظالم کے خلاف مزاحمت کی غرض سے مسلح جدوجہد وجود میں آئی تو شہید ابو مہدی البدر کے رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ شہید ابو مہدی بھی عراق کے متعدد دیگر مزاحمتی اور سیاسی رہنماؤں کی طرح عراق میں صدام کے سقوط کے بعد عراق واپس پلٹے تو شہید ابو مہدی نے نئی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ 2003ء میں عراق واپس جاتے ہی شہید ابو مہدی نے خود کو البدر سے علیحدہ کرکے کتائب حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔ شہید ابو مہدی 2005ء میں عراقی صوبے بابل سے پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے، لیکن بعدازاں امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے سبب انہیں پارلیمانی نشست سے استعفیٰ دے کر عراق ترک کرکے ایک دفعہ دوبارہ ایران آنا پڑا۔
2011ء میں شہید ابو مہدی دوبارہ عراق گئے اور سیاسی فعالیت کو ازسرنو شروع کیا۔ ان کی قیادت میں بننے والا سیاسی اتحاد الوطنی آج بھی عراقی پارلیمان کا ایک اہم اتحاد ہے۔ 2014ء میں داعش نے عراق کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تو عراق کی دینی مرجعیت آیت اللہ سیستانی کے حکم پر عوامی رضاکار فورس وجود میں آئی۔ اس فورس کی تشکیل میں شہید ابو مہدی اور ان کی مزاحمتی تحریک کتائب حزب اللہ کا کردار انتہائی اہم تھا۔ کتائب حزب اللہ نے حشد الشعبی کی 45ویں اور 46ویں بریگیڈ کی تشکیل کو مکمل کیا جبکہ 47ویں بریگیڈ میں بھی ایک بڑا حصہ کتائب کی افرادی قوت کا ہے۔ داعش کے خلاف جہاد شہید ابو مہدی کی چار عشروں پر محیط جہادی زندگی کا ایک نیا دور تھا۔ وہ حشد الشعبی کے نائب سربراہ بنائے گئے، لیکن ان کا کنٹرول روم بغداد کے کسی محفوظ اور پوش علاقے کا کوئی عسکری اڈہ نہیں بلکہ اگلے مورچوں پر کھڑے ٹینک اور مورچے تھا۔ شہید ابو مہدی بطور ایک فوجی جنرل میڈلز اور ستارے سینے پر سجانے کی بجائے اگلے مورچوں پر اپنے سپاہیوں کے ساتھ شانہ بشانے لڑنے کو اپنے لیے بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ سامراء، کاظمین، کربلا اور نجف کے مزاراتِ آل رسول کی حفاظت کے علاؤہ آمرلی، جرف الصخر، اربیل اور موصل کی آزادی کے کامیاب آپریشنز میں بھی شہید ابو مہدی کا بنیادی کردار ہے۔
مئی 2019ء میں اسرائیل نے عراق میں قائم حشد الشعبی کے فوجی اڈے کو نشانہ بنایا تو شہید ابو مہدی نے اسرائیل کو جہاں جواب دینے کی بات کی، وہیں امریکی و اسرائیلی جارحیت کے مقابلے کے لیے حشد الشعبی کے فضائی ونگ کی ضرورت پر بھی زور دیا اور یہ قوی احتمال تھا کہ اگر شہید ابو مہدی کچھ عرصہ مزید زندہ رہتے تو حشد الشعبی کے فضائی ونگ کی تشکیل ان کا ترجیح ایجنڈا ہوتا۔ عراق سمیت پورے خطے سے مکمل امریکی انخلاء، امریکی سامراج اور صہیونی منصوبوں کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کی تقویت شہید ابو مہدی المہندس کی آرزو تھی۔ اس آرزو کی تکمیل کے لیے انہوں نے اسلامی انقلاب اور نظامِ ولایت کے زیر سایہ تشکیل پانے والی اسلامی مزاحمت کے قافلے میں شمولیت اختیار کی۔ خود کو ہمشیہ اسلامی مزاحمت کا ادنیٰ سپاہی قرار دیا اور اس پر فخر محسوس کیا۔ شہید ابو مہدی اپنی آرزو جو خطے کے تمام بے نواؤں کی آرزو ہے؛ کی تکمیل کی خاطر امریکی سامراج اور صہیون ازم کے ساتھ نبرد آزما تھے،
جب امریکہ نے انہیں شہید قاسم سلیمانی کے ہمراہ گاڑی میں نشانہ بنایا اور اسلامی مزاحمت کے یہ دو عظیم مجاہد اپنے چند دیگر ساتھیوں کے ساتھ جامِ شہادت نوش کرگئے
shianews.