عالمی سیاست پر انقلاب اسلامی ایران کے اثرات

Rate this item
(2 votes)
عالمی سیاست پر انقلاب اسلامی ایران کے اثرات

پوری دنیا حیران ہے کہ امن پسند ایرانیوں نے سینکڑوں سالہ شہنشاہیت کی پر شکوہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ کیوں بجادی ؟ اس شاہ ایران کا تختہ کیوں الٹ پلٹ دیا 

 

 

 

انقلاب اسلامی ایران کا عمومی اثر

1۔حکومتوں پر اسلامی انقلاب کا اثر

ایران میں حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی(ر ح) کی زیر قیادت اسلامی انقلاب برپا ہونے کے بعد دنیا بھر کے دانشمندوں، سیاست دانوں اور اہل فکرحضرات کے ذہنوں میں ایک مشترک سوال تھا جو نہ صرف مسلم دنیا بلکہ پوری مہذب دنیا کی فضا، عالمی نشریاتی اداروں، ریڈیو، ٹی وی، تعلیمی اداروں اور ثقافتی مراکز میں اس سوال کو اٹھایا جارہا تھا کہ نو مولود شیعہ و اسلامی انقلاب جس کے قائد حضرت امام خمینی (ر ح) ہیں اس کی حقیقت کیا ہے؟ پوری دنیا حیران ہے کہ امن پسند ایرانیوں نے سینکڑوں سالہ شہنشاہیت کی پر شکوہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ کیوں بجادی ؟ اس شاہ ایران کا تختہ کیوں الٹ پلٹ دیا ؟

جس شاہی دور میں ان کو پوری آزادی حاصل تھی عیاشی اور آرام کرنے کے مکمل مواقع تھے۔ شراب کھلے عام پی سکتے تھے۔ کلبوں میں ننگے ناچ سکتے تھے وسائل کی فراوانی، موٹر کار، بنگلہ، کرنسی عام تھی۔ ان تمام تر آسائشوں کو چھوڑ کر ایرانی شیعہ مسلمانوں نے اللہ اکبر فقط قرآن و اسلام کی خاطر مصیبتوں اذیتوں اور قربانیوں کا راستہ کیوں اختیار کیا ؟ اس کا جواب خود امام خمینی نے دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:" پیامبران الہی اگر مبعوث بہ رسالت ہوۓ ہے تو اسکا مقصد معاشروں کی اصلاح تھی اور ان ظالم طاقتوں کے بنیادوں کو ہلانا تھا، جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ۔ اور یقیناً ہم نے ہر ایک امت میں کوئی نہ کوئی رسول (یہ پیغام دے کر) ضرور بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (کی بندگی) سے بچو پس ان (امتوں) میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی مستقر اور ثابت ہوگئی۔

اس ترقی یافتہ اور سائنسی دور میں دین اسلام بحیثیت طاقت کے طور پر کیسےابھرا ؟ جب امام خمینی (ر ح) کی قیادت میں اسلامی انقلاب برپا ہوا تو اقوام متحدہ کے اکثر رکن ممالک یہاں تک اسلامی حکومتوں نے بھی اس انقلاب کا استقبال نہیں کیا۔ بلکہ اکثر ممالک حیران اور پریشان اور سرگران تھےکیونکہ ایک ایسے واقعہ اور حادثہ کا رونما ہونا ان کے لئے بالکل قابل پیش بینی نہ تھا۔

دوسری طرف دنیا کے ساری حکومتیں مستقبل میں اپنے معاشرہ پر اس انقلاب کے اثرات سے خوفزدہ اور خائف تھی۔ ساری حکومتیں اپنے بقا‏ء کے لئے سوچ رہی تھی۔ اور کسی بھی ممکنہ عوامی تحریک سے خوفزدہ تھے۔ بلا ایسے انقلاب کا استقبال اور خیر مقدم نہ کرنا عادی سی بات تھی۔ خاص طور پر ایسی حکومتیں جن کے سیاسی نظام سیکولر تھے جس کی ملکی اساس دین اور سیاست کی جدایی پر مبنی تھی ۔ اس لیے اسلامی انقلاب خطرناک ہونا ایک مسلم بات تھی کیونکہ موجودہ حالات کو ختم کر کے ایک نیا سسٹم اور نیا افکار کو پیش کیا جا رہا تھا۔ یورپی ممالک اور امریکہ اس انقلاب کےمقابلے میں سخت ترین دشمن بن کر سامنے آے اور اس نومولود انقلاب کے خاتمے کیلیے اپنی تمام وسایل کو بروکار لاے اس دشمنی اور کینہ کی دو بنیادی وجہ تھی ۔

1۔کیونکہ شہنشاہی حکومت اور اسکا نظام کلی طور پر یورپ اور آمریکہ سے وابستہ تھا۔ لیکن انقلاب کے آنے کے بعد ان کے تمام مفادات خطرے میں پڑھ گئے۔
2۔ اصولی طور پر دینی اور مذہبی اعتقادات اور اصول پر مبنی انقلابات لیبرل اور سیکولر نظام کو چیلینج کرتے ہوۓ‎ ان کی آئیڈیالوجی اور مستقبل کو نابود کرتے ہیں۔

دوسری طرف ان حکومتوں کی ایران کے ساتھ جغرافیائی اعتبار سے دور اور نزدیک ہونے کو بھی نظر آنداز نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے الفاظ میں جو ممالک ایران کے ساتھ جغرافیائی اعتبار سے نزدیک اور اس ملک کے ہمساۓ تھے، وہاں انقلاب کے اثرات کو محسوس کیا جا رہا تھا اور عوام میں اس انقلاب کی مقبولیت اور نفوذ کا زیادہ خطرہ تھا لہذا ان ممالک نے انقلاب کے ممکنہ اثرات کو روکنے کیلیے سخت اقدامات کیے ۔ اسلامی حکومتوں کا رویہ بھی انقلاب کے ساتھ منفی تھا، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے رویوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، بلکہ مختلف حیلے و بہانوں سے انقلاب کو ناکام کرنے کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھا ۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی |

تحریر: ڈاکٹر فرمان علی سعیدی شگری

Read 314 times