فلسطین سے متعلق تازہ ترین خبروں میں جبالیہ کیمپ پر فاسفورس بموں سے بمباری اور غزہ پٹی کے جنوب میں مزاحمتی قوتوں اور جارحین کے درمیان شدید جھڑپیں شامل ہیں۔ غزہ پٹی کے مختلف علاقوں بشمول النصیرات کیمپ، خان یونس اور دیر البلح میں فلسطینی شہریوں کے گھروں پر آج (بدھ) صبح اسرائیلی بمباروں نے بمباری کی۔ فلسطینی ذرائع نے "کمال عدوان" اسپتال، جبالیہ کیمپ اور خان یونس شہر پر صیہونی حکومت کے حملوں کے تسلسل کی بھی اطلاع دی۔ ان ذرائع نے اعلان کیا کہ صیہونی قابض فوج کی جانب سے گذشتہ رات کو کمال عدوان اسپتال کی جانب 70 توپوں کے گولے داغے گئے۔
فلسطینی ذرائع نے اسرائیلی بمبار طیاروں کی طرف سے جبالیہ کیمپ پر بمباری کی بھی اطلاع دی، جس میں سو سے زائد خاندان آباد ہیں۔ غزہ پٹی میں رہائشی مکانات پر صیہونی حکومت کے فضائی حملوں میں دس سے زائد دیگر شہری شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ تازہ ترین شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر کو الاقصیٰ طوفانی آپریشن کے آغاز سے لے کر منگل 5 دسمبر تک صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں کی وجہ سے غزہ کے 16 ہزار 248 افراد شہید ہوچکے ہیں۔ غزہ کے اسپتال کے ذرائع نے بھی اعلان کیا ہے کہ بین الاقوامی تنظیمیں قابض افواج کے خطرے کے پیش نظر غزہ کے شمال کو تنہا چھوڑ کر جنوب کی طرف چلی گئی ہیں۔
صیہونی حکومت کا غزہ کے خلاف جنگ میں اپنے منصوبے کو تبدیل کرنے اور اس پٹی کے جنوب میں جنونی حملے شروع کرنے کا ایک اہم ترین مقصد خان یونس شہر پر تسلط حاصل کرنا ہے۔ ایک شہر جس کا نام حماس اور قسام سے جڑا ہوا ہے۔ میدان جنگ کو شمال سے جنوب کی طرف تبدیل کرکے صیہونی حکومت کئی اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے: سب سے پہلے، شمال میں پیشرفت کے تعطل پر قابو پانا اور میڈیا کی توجہ جنوب میں پیشرفت پر مرکوز کرنا ہے۔ دوسرا ہدف حماس اور قسام کے اہم شہروں میں سے ایک کے طور پر خان یونس تک پہنچنا اور آخری اور تیسرا ہدف یہ ہے کہ صہیونی غزہ مین حماس کے خلاف عوام کے سماجی دباؤ کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ صیہونی حکومت انسانی آفات اور نقصانات میں اضافہ کرکے نیز بم دھماکوں اور حملوں سے اسلامی مزاحمت کے خلاف عوام کو حماس وغیرہ کے مقابلے میں لانا چاہتے ہیں۔
تاہم جیسا کہ قیدیوں کے تبادلے کے دوران دیکھا گیا، ہمہ گیر حملوں اور وسیع پیمانے پر قتل و غارت گری کے باوجود نہ صرف حماس اور مزاحمت کی مقبولیت کم نہیں ہوئی بلکہ اس کے برعکس اسے استحکام حاصل ہوا ہے۔ ان حالات میں فلسطینیوں کی قومی یکجہتی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ میدانی منظر نامے میں موصول ہونے والی اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسطینی فورسز نے غزہ کے جنوب میں قابضین کی پیش قدمی کے خلاف ایک مضبوط رکاوٹ کھڑی کر دی ہے، جس نے خان یونس کی طرف صیہونی افواج کی پیش قدمی کو بری طرح سست کر دیا ہے۔
فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کا عسکری ونگ سرایا القدس گذشتہ 24 گھنٹوں میں اسرائیلی فوج کی گاڑیوں اور ساز و سامان کو تباہ کرنے کے علاوہ 9 دیگر اسرائیلی افسروں اور فوجیوں کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ اس طرح طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز سے اب تک ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد 408 افسروں اور سپاہیوں تک پہنچ گئی ہے۔ صیہونی تجزیہ نگاروں نے غزہ میں اسرائیلی فوج کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غزہ کے علاقے شجاعیہ میں متوقع سخت لڑائی کی خبر دی ہے۔ صیہونی حکومت کے چینل 12 کے تجزیہ کار "ایہود بن ہیمو" نے تاکید کی ہے کہ جو کوئی بھی "السنوار" اور اس کے ساتھی فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کا سوچ رہا ہے، وہ کسی دوسری دنیا میں رہ رہا ہے اور اس کی یہ خواہش وہم و خیال کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
دوسری جانب فلسطین سے باہر بھی صیہونی حکومت کے خلاف آئے روز نئے محاذ کھولے جا رہے ہیں، تازہ ترین خبروں کے مطابق شام کے صوبہ درعا کے مغربی مضافاتی علاقوں سے مزاحمتی گروہوں نے مقبوضہ علاقے کی سرحدوں کے قریب حملہ کیا ہے۔ مزاحمتی گروہوں نے صیہونی حکومت کے ٹھکانوں پر میزائلوں سے حملہ کیا اور مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں کو نشانہ بنایا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس میزائل حملے کی شدت حالیہ برسوں میں بے مثال ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمتی گروہوں کے اتحاد کا ڈراؤنا خواب وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے، جس کا نتیجہ صیہونیوں کی شکست کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا
تحریر: احمد کاظم زادہ