مغربی ممالک کی اسلام مخالف پالیسی کے تسلسل میں یورپی یونین کے قوانین سے متعلق مسائل سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ ترین اتھارٹی یورپین کورٹ آف جسٹس نے اس یونین کے رکن ممالک میں ملازمین کے لیے حجاب پر پابندی کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ یورپی یونین کے قانون سے متعلق مسائل سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ ترین اتھارٹی یورپین کورٹ آف جسٹس نے فیصلہ دیا کہ یورپی یونین کے ممبر ممالک اپنے ملازمین کو ایسے لباس پہننے سے منع کرسکتے ہیں، جو مذہبی عقائد کی عکاسی کرتے ہوں۔ یہ حکم بیلجیئم کی ایک خاتون کے دعویٰ کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے آجر نے اسے یہ کہہ کر اس کی مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی کی ہے کہ وہ کام پر حجاب نہیں پہن سکتی۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں یورپی ممالک میں اسلام دشمنی میں اضافہ ہوا ہے اور فرانس سمیت بہت سے یورپی ممالک میں بہت سے مسلمانوں خصوصاً خواتین پر نہ صرف دباؤ ڈالا گیا بلکہ ہراساں کرکے ان کے مقدسات کی توہین کی گئی۔ البتہ حالیہ مہینوں میں اس عمل میں زیادہ تیزی آئی ہے۔
درحقیقت حالیہ مہینوں میں مغربی ممالک نے مختلف قوانین منظور کرکے اپنی اسلام مخالف پالیسیوں کو باضابطہ طور پر قانونی شکل دی ہے۔ اس تناظر میں ہم فرانس کے سرکاری سکولوں میں مسلم لڑکیوں کے عبایا پہننے پر پابندی کے قانون کی منظوری اور سویڈن میں قرآن پاک کو جلانے کی اجازت کے اجراء کا ذکر کرسکتے ہیں۔ دریں اثناء، یورپی ممالک نے اسلام مخالف پالیسیوں کو اپناتے ہوئے اس میں شدت پیدا کی ہے، جالانکہ یہ ممالک کئی دہائیوں سے آزادی اور مختلف عقائد اور مذاہب کے احترام کے دعوے کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان ممالک نے بہت سے معاملات میں دوسرے ممالک کو آزادی کی خلاف ورزی کرنے اور انسانوں کا احترام نہ کرنے کی مذمت بھی کی ہے اور ان ممالک کے خلاف اقدامات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
مغربی ممالک میں اس وقت سب سے اہم مسئلہ حجاب کا مسئلہ ہے۔ مغربی ممالک کے حکمران سرکاری طور پر حجاب اور مسلم مذہبی علامات کو مختلف وجوہات کی بنا پر ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، جن میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ وہ حجاب پہننے کو سیکولر قوانین کی خلاف قرار دیتے ہیں۔ شائع شدہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ فرانس مسلمانوں، خاص طور پر حجاب پہننے والی مسلم خواتین کے خلاف انتہائی نسل پرستانہ سلوک کر رہا ہے۔ دیگر یورپی ممالک میں بھی صورتحال ایسی ہی ہے، جیسا کہ جرمنی کی وفاقی پارلیمان نے ایک قانون منظور کیا ہے، جس کے تحت سرکاری ملازمین کے "مذہبی علامات" پہننے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
ہنگری میں، مسلم خواتین پر کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم خواتین کے خلاف زبانی بدسلوکی کا سلسلہ جاری ہے اور ان لوگوں سے شدید نفرت کی ایک وجہ ان کا غیر ملکی ہونا بھی ہے۔ یہ حالات ایسے ہیں کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے حال ہی میں اس حوالے سے کہا: "مسلمانوں کے خلاف نفرت اور صنفی عدم مساوات ناقابل برداشت ہے۔ مسلم خواتین کے خلاف تین حوالوں سے مثلاً رنگ، نسل اور عقیدہ، کے حوالے سے متعصبانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔" اب یورپی عدالت انصاف نے اسلام دشمنی اور مسلمانوں پر دباؤ بڑھانے کی سمت میں ایک اور قدم اٹھایا ہے، حالانکہ انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کے آرٹیکل 9 میں کہا گیا ہے: "ہر کسی کو سوچ، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہے اور اس میں اظہار رائے سمیت مذہب، عبادت، تعلیم اور کوئی بھی عقیدہ رکھنے کی آزادی شامل ہے۔"
عدالتِ انصاف نے عملی طور پر یورپی ممالک کو اجازت دی ہے کہ وہ خواتین کو حجاب کے انتخاب کی آزادی سے محروم کر دیں اور ان کی ملازمت اور جاب کرنے کی پوزیشن کو خطرے میں ڈالیں۔ مغربی ممالک کے قانونی ادارے مختلف جواز اور تاویلات کے ساتھ مسلم خواتین بالخصوص ان کے لباس پر پابندیاں عائد کرتے ہیں، حالانکہ حجاب صرف ایک مذہبی علامت نہیں ہے بلکہ مسلم خواتین کی شناخت کا بنیادی حصہ بھی ہے۔ درحقیقت مغربی حکام یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان خواتین کو ان کی جاب اور سماجی حیثیت کو نقصان پہنچائیں۔ جرمنی کی اسلامی کونسل کے سربراہ برہان کاسیجی نے کہا ہے کہ ہم حکام سے مسلمانوں کی حفاظت کی توقع رکھتے ہی
تحریر: اتوسا دیناریان