اسرائیلی جرائم اور سیلف سنسر

Rate this item
(0 votes)
اسرائیلی جرائم اور سیلف سنسر


امریکہ نے صیہونی حکومت کے اہم حامی کے طور پر غزہ جنگ کے دوران نہ صرف صیہونی حکومت کی وسیع سیاسی اور فوجی مدد کی ہے بلکہ امریکی انتظامیہ نے فلسطینیوں کے حامیوں اور اسرائیل کے جرائم پر تنقید کرنے والوں کے خلاف بھی دباؤ بڑھا رکھا ہے۔ مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے فلسطین کے حامیوں بالخصوص یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور اسٹوڈینٹس کو ہر قسم کے دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔ بعض پروفیسروں کو اپنی ملازمتوں سے محروم ہونے یا استعفیٰ دینے پر مجبور ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں ریاستہائے متحدہ کانگریس کی تعلیم اور افرادی قوت سے متعلق کمیٹی نے 5 دسمبر کو یونیورسٹی آف پنسلوانیا کی صدر "لِز میگل"، ہارورڈ یونیورسٹی کی صدر "کلاؤڈین گی" اور میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی صدر "سیلی کورن بلوتھ" کو تفتیش کے لئے بلایا۔ یہ کارروائی کانگریس کی جانب سے غزہ کی پٹی کے لیے حمایت کا اعلان کرنے کے لیے بعض امریکی یونیورسٹیوں کے طلبہ کے اقدامات کی مذمت میں ایک قرارداد کی منظوری کے بعد ہوئی ہے۔

اس قرارداد کے مطابق حماس، حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروپوں کی امریکی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں حمایت مبینہ "دہشت گردی" کی حمایت سمجھی جائے گی۔ اگرچہ مذکورہ قرارداد میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ محض ایک علامتی اقدام ہے، لیکن امریکی یونیورسٹی کے صدور کے تفتیشی پروگرام نے اس دعوے کے برعکس ظاہر کیا اور ثابت کیا کہ قرارداد کے مواد پر امریکی یونیورسٹیوں میں باقاعدہ عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں امریکی یونیورسٹی کے طلباء کی سیلف سنسر شپ اور اس کی وجوہات کے بارے میں شائع ہونے والا ڈیٹا اس معاملے کی سچائی کو ثابت کررہا ہے۔

امریکی کانگریس کے مطالبے کے بعد یونیورسٹی آف پنسلوانیا کی صدر "لِز میگیل" جنہیں اس یونیورسٹی کے کیمپس میں فلسطین کے مظلوم عوام کے حامیوں کے مظاہرے کے بعد امریکی کانگریس میں طلب کیا گیا، ریاستی دھمکیوں کی وجہ سے پیر کے روز اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئیں۔ پنسلوانیا یونیورسٹی کے طلباء نے اس سے قبل صیہونی حکومت کے جرائم پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں شہریوں کے قتل عام کو بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس یونیورسٹی میں ہونے والے مظاہرے میں "Liz Magill" کو اسرائیل کے حامیوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

 ایک اور تقریب میں ہارورڈ یونیورسٹی کے چار طلباء کو غزہ کے عوام کی حمایت اور احتجاجی ریلیوں میں شرکت کرنے پر یونیورسٹی کی تادیبی کمیٹی میں بلایا گیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اس یونیورسٹی میں فلسطین کے حامیوں کی طرف سے مظاہروں کو ایک ناقابل قبول رویہ قرار دیکر اسے تعلیم  اور تعلیمی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں گذشتہ ماہ فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے احتجاج میں حصہ لینے والے طلباء کو خبردار کیا جائے گا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے طالبعلم "کوجو اچمپونگ" کا کہنا ہے کہ: تادیبی کارروائیوں میں طلباء کی پڑھائی کی معطلی بھی شامل ہوسکتی ہے۔ لیکن ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ (یونیورسٹی حکام) ہمیں نہیں روک سکتے اور یہ اقدامات ہمیں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی سے نہیں روک سکتے۔

 اسرائیل کے لیے انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والی بائیڈن کی جمہوری حکومت کی وسیع حمایت کے باوجود، امریکہ کے اندر عوام، اشرافیہ، خاص طور پر طلباء اور پروفیسرز غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی مخالفت اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے امریکی یونیورسٹیاں فلسطینی قوم کے حامیوں اور صیہونی حکومت کے درمیان تصادم کا مرکز اور 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن اور غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے بعد کے ہفتوں میں مختلف احتجاجی ریلیوں کا مرکز بن چکی ہیں۔ صیہونی حکومت کے خلاف فلسطینیوں کی حمایت میں یونیورسٹی کے پروفیسرز کے موقف اور اسرائیلی جرائم کے خلاف طلباء کے احتجاج ن کی وجہ سے ان کے خلاف  ریاستی دباؤ بڑھا دیا گیا ہے۔

 یہود دشمنی کے الزامات کے ذریعے امریکی ماہرین تعلیم پر لایا جانے والا دباؤ اس حقیقت کا باعث بنا ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ خود سنسر شپ کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور یہاں تک کہ ان تنازعات کے بارے میں علمی رائے دینے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ امریکہ میں مشرق وسطیٰ کے 80 فیصد پروفیسرز اور طلباء کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی جرائم کے بارے میں سیلف سنسر کے فارمولے پر عمل کر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی حمایت میں وسعت اور غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت نے امریکی انتظامیہ کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ امریکی یونیورسٹیوں کی سطح بالخصوص یونیورسٹی کے مراکز کی انتظامیہ نیز طلباء اور پروفیسروں کو ڈرا دھمکا اور انہیں نکالنے کی دھمکیاں دے کر خاموش کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے صدر کے حوالے سے تادیبی کارروائی نے ایک بار پھر مغرب اور خاص طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ میں آزادی اظہار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

 اہل مغرب ان لوگوں کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کرتے ہیں، جو ان کے نقطہ نظر سے مقدس اور ناقابل اعتراض معاملات میں غیر روایتی یا غیر مجاز موقف اختیار کرتے ہیں۔ مغرب کے حکمران ان کے خلاف ہر قسم کے دباؤ اور سزائیں لاگو کرتے ہیں۔ درحقیقت امریکہ سمیت مغربی ممالک میں اظہار رائے کی آزادی صرف اس وقت تک موجود ہے، جب تک کہ کوئی ان کی سرخ لکیروں یا ان ممالک کے نام نہاد ممنوعات، مثلاً صیہونی حکومت یا ہولوکاسٹ کی مکمل حمایت پر سوالیہ نشان نہیں لگاتا۔ جیسے ہی اس ایشو پر یا فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کے جرائم کی مذمت کے بارے میں کوئی چھوٹا سا بھی سوال اٹھائے تو اس طرح کے اقدامات کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جاتی ہے۔

تحریر: سید رضا میر طاہر

Read 87 times