امریکہ میں حکمفرما عیسائی صیہونی ہر گز اسرائیل پر حکمفرما صیہونیوں سے کم نہیں ہیں۔ انہوں نے 7 اکتوبر کے روز طوفان الاقصی آپریشن انجام پانے کے بعد سے ہی اپنی نسل پرستانہ اور انسان مخالف مجرمانہ خصلت کا اظہار کر دیا تھا اور بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس پوری طرح نابود ہو جائے اور تمام اسرائیلی یرغمالی آزاد کروا لئے جائیں گے۔ دوسری طرف گذشتہ 18 برس سے شدید ترین محاصرے کا شکار غزہ کی پٹی کے خلاف غاصب صیہونی رژیم کی انتقامی کاروائی اور اس میں بروئے کار لائی گئی انتہائی درجہ بربریت اور عام شہریوں کے قتل عام کو مسلسل 77 روز گزر جانے کے باوجود اسرائیل کچھ حاصل نہیں کر پایا۔
اب تک غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کو جو کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ بیگناہ شہریوں کی قتل و غارت اور وسیع پیمانے پر تباہی اور بربادی ہے۔ غزہ میں ایک ساتھ دو جنگیں چل رہی ہیں۔ اصلی جنگ صیہونیوں کی نگاہ سے غزہ کی عوام کے خلاف جاری ہے جبکہ بظاہر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان کی جنگ اسلامی مزاحمت کے خلاف ہے۔ غزہ کی عوام کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ حق طلب ہیں، اپنی غصب شدہ سرزمین واپس چاہتے ہیں اور اس راستے میں استقامت اور مزاحمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی بے مثال مظلومیت کے باوجود عالمی سطح پر ایک ایسا معجزہ کر دکھایا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف دنیا بھر کی عوام ان پر جاری ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں بلکہ عرب حکومتیں بھی چیلنج کا شکار ہو گئی ہیں۔
عالمی سطح پر جاری عوامی احتجاج نے وائٹ ہاوس کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے جو غزہ جنگ کو شعلہ ور کرنے کے علاوہ روز بروز اس کی شدت میں اضافے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ امریکی حکمران ابھی سے ہی خود کو آئندہ الیکشن میں شکست خوردہ دیکھ رہے ہیں اور خود اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ عالمی سطح پر گوشہ گیری اور اجتماعی نفرت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اگرچہ امریکی حکمران غزہ میں اور دنیا کے دیگر حصوں میں وسیع قتل عام کے منصوبے رکھتے ہیں لیکن وہ بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہیں غزہ کی مکمل نابودی پر بات ختم نہیں ہو گی اور اس کے بعد اصل مسئلہ مغربی نظریات کا کھوکھلا پن اور جھوٹے نعروں کی حقیقت فاش ہو جانے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ وہ اسے مغربی ایشیا اور بین الاقوامی سطح پر اپنی اسٹریٹجک شکست سمجھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جک سیلیوان نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا تاکہ بنجمن نیتن یاہو کے سامنے اپنی جنگ پھیلانے کی پیاس پر تاکید کے ساتھ ساتھ اسے اس بات سے بھی خبردار کر سکے کہ غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کی اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں کارکردگی تقریباً صفر ہے جبکہ غزہ میں جاری نسل کشی امریکہ کو مہنگی پڑ رہی ہے۔ لہذا اس نے بنجمن نیتن یاہو کو دو راہے پر لا کھڑا کیا ہے اور وہ اپنی کابینہ سے شدت پسند وزیروں کو نکال باہر کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ نیتن یاہو جو اپنی محدود سیاسی بقا کیلئے جنگ جاری رہنے کو ضروری سمجھتا ہے جانتا ہے کہ اگر اس نے اپنی کابینہ سے شدت پسند وزیروں کو نکال باہر کیا تو حکومتی اتحاد ٹوٹ جائے گا۔
بنجمن نیتن یاہو یہ بھی جانتا ہے کہ اگر وہ امریکہ کی جانب سے پیش کردہ نام نہاد دو ریاستی راہ حل قبول کرتا ہے تو اس کا مطلب اسرائیل میں تمام دائیں بازو کی اور شدت پسند جماعتوں کی سیاسی موت ہو گا۔ اگرچہ یہ دو ریاستی راہ حل محض دھوکہ اور فریب ہے اور اس کا واحد مقصد عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور دنیا کے دیگر ممالک کو فریب دینا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو کی حکومت شدت پسندی اور ہر قسم کی فلسطینی ریاست کی نفی اور غزہ میں مکمل نسل کشی پر اصرار جیسی بنیادوں پر استوار ہے۔ لہذا جک سیلیوان کے مطالبات نے اسرائیلی حکمرانوں کو ایک تضاد کا شکار کر دیا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے غزہ جنگ میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی، امریکی، فرانسیسی اور جرمن کمانڈوز کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جبکہ صیہونی رژیم کے اعلان کردہ جنگی مقاصد سے کوئی مقصد اب تک حاصل نہیں ہو پایا۔
دوسری طرف عالمی رائے عامہ میں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور عالمی اداروں اور بین الاقوامی قوانین کے سامنے صیہونی رژیم اور مغربی حکمرانوں کی عزت بھی داو پر لگتی جا رہی ہے۔ اگرچہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے صیہونی رژیم کی لاجسٹک سپورٹ اپنے ذمے لے رکھی ہے لیکن بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن کی مزاحمتی کاروائیوں نے صیہونی کابینہ سے طویل جنگ کی امید چھین لی ہے۔ لہذا ان دنوں مغربی حکمرانوں اور صیہونی رژیم کی جانب سے ایک اور جنگ بندی کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس جنگ بندی کا مقصد تازہ دم ہونا اور عالمی سطح پر غم و غصے کی شدت کم کرنا ہے۔ غزہ جنگ امریکہ کو بند گلی اور اسرائیل کو تضاد کا شکار کر چکی ہے۔ چاہے وہ جنگ بند کر دیں یا چند ہفتوں کیلئے مزید جاری رکھیں جس دلدل میں انہوں نے قدم رکھا ہے اس سے نکلنا ممکن نہیں۔
اب تک غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کو جو کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ بیگناہ شہریوں کی قتل و غارت اور وسیع پیمانے پر تباہی اور بربادی ہے۔ غزہ میں ایک ساتھ دو جنگیں چل رہی ہیں۔ اصلی جنگ صیہونیوں کی نگاہ سے غزہ کی عوام کے خلاف جاری ہے جبکہ بظاہر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان کی جنگ اسلامی مزاحمت کے خلاف ہے۔ غزہ کی عوام کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ حق طلب ہیں، اپنی غصب شدہ سرزمین واپس چاہتے ہیں اور اس راستے میں استقامت اور مزاحمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی بے مثال مظلومیت کے باوجود عالمی سطح پر ایک ایسا معجزہ کر دکھایا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف دنیا بھر کی عوام ان پر جاری ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں بلکہ عرب حکومتیں بھی چیلنج کا شکار ہو گئی ہیں۔
عالمی سطح پر جاری عوامی احتجاج نے وائٹ ہاوس کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے جو غزہ جنگ کو شعلہ ور کرنے کے علاوہ روز بروز اس کی شدت میں اضافے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ امریکی حکمران ابھی سے ہی خود کو آئندہ الیکشن میں شکست خوردہ دیکھ رہے ہیں اور خود اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ عالمی سطح پر گوشہ گیری اور اجتماعی نفرت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اگرچہ امریکی حکمران غزہ میں اور دنیا کے دیگر حصوں میں وسیع قتل عام کے منصوبے رکھتے ہیں لیکن وہ بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہیں غزہ کی مکمل نابودی پر بات ختم نہیں ہو گی اور اس کے بعد اصل مسئلہ مغربی نظریات کا کھوکھلا پن اور جھوٹے نعروں کی حقیقت فاش ہو جانے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ وہ اسے مغربی ایشیا اور بین الاقوامی سطح پر اپنی اسٹریٹجک شکست سمجھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جک سیلیوان نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا تاکہ بنجمن نیتن یاہو کے سامنے اپنی جنگ پھیلانے کی پیاس پر تاکید کے ساتھ ساتھ اسے اس بات سے بھی خبردار کر سکے کہ غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کی اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں کارکردگی تقریباً صفر ہے جبکہ غزہ میں جاری نسل کشی امریکہ کو مہنگی پڑ رہی ہے۔ لہذا اس نے بنجمن نیتن یاہو کو دو راہے پر لا کھڑا کیا ہے اور وہ اپنی کابینہ سے شدت پسند وزیروں کو نکال باہر کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ نیتن یاہو جو اپنی محدود سیاسی بقا کیلئے جنگ جاری رہنے کو ضروری سمجھتا ہے جانتا ہے کہ اگر اس نے اپنی کابینہ سے شدت پسند وزیروں کو نکال باہر کیا تو حکومتی اتحاد ٹوٹ جائے گا۔
بنجمن نیتن یاہو یہ بھی جانتا ہے کہ اگر وہ امریکہ کی جانب سے پیش کردہ نام نہاد دو ریاستی راہ حل قبول کرتا ہے تو اس کا مطلب اسرائیل میں تمام دائیں بازو کی اور شدت پسند جماعتوں کی سیاسی موت ہو گا۔ اگرچہ یہ دو ریاستی راہ حل محض دھوکہ اور فریب ہے اور اس کا واحد مقصد عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور دنیا کے دیگر ممالک کو فریب دینا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو کی حکومت شدت پسندی اور ہر قسم کی فلسطینی ریاست کی نفی اور غزہ میں مکمل نسل کشی پر اصرار جیسی بنیادوں پر استوار ہے۔ لہذا جک سیلیوان کے مطالبات نے اسرائیلی حکمرانوں کو ایک تضاد کا شکار کر دیا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے غزہ جنگ میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی، امریکی، فرانسیسی اور جرمن کمانڈوز کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جبکہ صیہونی رژیم کے اعلان کردہ جنگی مقاصد سے کوئی مقصد اب تک حاصل نہیں ہو پایا۔
دوسری طرف عالمی رائے عامہ میں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور عالمی اداروں اور بین الاقوامی قوانین کے سامنے صیہونی رژیم اور مغربی حکمرانوں کی عزت بھی داو پر لگتی جا رہی ہے۔ اگرچہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے صیہونی رژیم کی لاجسٹک سپورٹ اپنے ذمے لے رکھی ہے لیکن بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن کی مزاحمتی کاروائیوں نے صیہونی کابینہ سے طویل جنگ کی امید چھین لی ہے۔ لہذا ان دنوں مغربی حکمرانوں اور صیہونی رژیم کی جانب سے ایک اور جنگ بندی کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس جنگ بندی کا مقصد تازہ دم ہونا اور عالمی سطح پر غم و غصے کی شدت کم کرنا ہے۔ غزہ جنگ امریکہ کو بند گلی اور اسرائیل کو تضاد کا شکار کر چکی ہے۔ چاہے وہ جنگ بند کر دیں یا چند ہفتوں کیلئے مزید جاری رکھیں جس دلدل میں انہوں نے قدم رکھا ہے اس سے نکلنا ممکن نہیں۔
تحریر: ہادی محمدی