شیعہ نیوز: یمن میں حکمفرما انصاراللہ تحریک نے گذشتہ چند ہفتوں سے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ اس دوران یمن نیوی دسیوں ایسی تجارتی کشتیوں کو ضبط یا انہیں میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنا چکی ہے جو کسی نہ کسی طرح اسرائیل سے مربوط تھیں۔ اس میدان میں انصاراللہ یمن کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے سب سے بڑے حامی امریکہ نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی کشتیوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے عالمی سطح پر فوجی اتحاد تشکیل دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ انصاراللہ یمن کی جانب سے بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں اسرائیلی اور اسرائیل کیلئے تجارتی سامان لے کر جانے والی کشتیوں پر پابندی کے باعث اسرائیل کی ایلات بندرگاہ مکمل طور پر بند ہو چکی ہے اور اسے روزانہ کئی ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
امریکہ اور چند مغربی ممالک کی جانب سے انصاراللہ یمن کے خلاف فوجی اتحاد تشکیل دینے کیلئے یکطرفہ، دو طرفہ اور چند طرفہ گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی اہمیت اس وقت مزید ابھر کر سامنے آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ انصاراللہ یمن کی کاروائیوں کے باعث میرسک اور ہاپاگ لویڈ جیسی بڑی کمپنیاں بھی بحیرہ احمر میں تجارتی سرگرمیاں روک دینے کا اعلان کر چکی ہیں۔ اس بارے میں جو چیز قابل توجہ ہے اور اسے بیان کرنا ضروری ہے وہ انصاراللہ یمن کے بارے میں شائع ہونے والی خبریں ہیں۔ بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن کی سرگرمیوں سے لے کر غاصب صیہونی رژیم کی ایلات بندرگاہ پر اس کے میزائل اور ڈرون حملوں تک اور چالیس ممالک کے ہمراہ امریکہ کا انصاراللہ یمن کے خلاف فوجی اتحاد تشکیل دینے کی خبر سے لے کر یمن میں انصاراللہ کی مخالف نگران کونسل کی جانب سے تل ابیب سے خود کو تسلیم کرنے کی درخواست تک۔
یمن میں انصاراللہ کے مخالف دھڑے نگران کونسل نے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو خود کو تسلیم کرنے کے عوض بحیرہ احمر میں اس کے مفادات کا تحفظ کرنے کی پیشکش کی ہے۔ ان تمام سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور یمن میں انصاراللہ کے علیحدگی پسند مخالفین مستقبل میں اپنے مفادات خطرے میں پڑ جانے کے خوف سے ہاتھ پاوں مارنے میں مصروف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انصاراللہ یمن نے علاقائی سطح پر بین الاقوامی پانیوں میں موجودگی برقرار رکھ کر ثابت کر دیا ہے کہ یمن میں انارکی اور بے امنی کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اور اب یمن کی مسلح افواج کی نگاہیں ملکی امور سے بالاتر ہو کر علاقائی امور پر لگی ہیں۔
گذشتہ کچھ عرصے کے دوران انصاراللہ یمن کی جانب سے مختلف میدانوں میں فعالیت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس کی پوشیدہ توانائیاں اور صلاحیتیں سب کیلئے واضح ہو گئی ہیں جس کے نتیجے میں جارح طاقتوں کے دل خوف اور وحشت سے پر ہو گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے انصاراللہ یمن خود کو علاقائی طاقت کے طور پر منوا کر موجودہ حالات تبدیل کرنے میں کامیاب رہی ہے اور اس کا مدمقابل نہ صرف اس حقیقت کو قبول کر چکا ہے بلکہ اپنی پوزیشن اور مفادات کھو دینے کے خوف میں بھی مبتلا ہو چکا ہے۔ اس خوف کی ایک وجہ انصاراللہ یمن کی جانب سے ملک کے اندر اور علاقائی سطح پر نئی جنگی پالیسی اختیار کئے جانے کا امکان بھی ہے۔ لہذا امریکی طاقتوں سمیت مغربی ممالک کی تمام تر کوشش فوجی اقدامات کے ذریعے انصاراللہ یمن کو مطلوبہ اہداف تک پہنچنے سے روکنا ہے۔
امریکہ اور اس کی اتحادی مغربی طاقتیں مختلف قسم کے ہتھکنڈے بروئے کار لا کر ایسے اقدامات کرنے کے درپے ہیں جن کے ذریعے مستقبل قریب میں انصاراللہ یمن کے اچانک حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اسی طرح ان کا ایک اور مقصد یمن کیلئے میدان خالی نہ چھوڑنا ہے اور ممکنہ تلخ نتائج سے بچنا ہے۔ جس چیز نے انصاراللہ یمن کو جارح قوتوں، مغربی طاقتوں، علیحدگی پسند عناصر اور تل ابیب کیلئے ڈراونا خواب بنا دیا ہے اور وہ اس سے مقابلے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں، وہ توانائیاں اور صلاحیتیں ہیں جنہیں اب تک انصاراللہ نے ظاہر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے اندرونی سطح پر کچھ حد تک کشمکش کم ہونے کے نتیجے میں انصاراللہ یمن نے بھرپور انداز میں علاقائی سطح پر سرگرم ہو کر اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔