علی زمانی شہید سلیمانی کے ساتھی ہیں جو کئی سالوں تک محاذوں پر دلوں کے سردار کے ساتھ رہے ہیں۔ شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی تیسری برسی کے موقع پر مہر کی ان سے بات چیت ہوئی۔
شہداء کی ماؤں کی تعظیم و تکریم
علی زمانی نے شہید سلیمانی کی تیسری برسی کے لئے "جان فدا” نعرے کے انتخاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میری شہید سلیمانی سے دفاع مقدس کے آغاز میں آشنائی ہوئی اور اس وقت سے ان کی شہادت تک میں نے کرمان میں شہید کا ایک دن بھی ایسا نہیں دیکھا جو انہوں نے عوام کے درمیان حاضر ہونے اور ان کے مسائل حل کرنے کی منصوبہ بندی کے بغیر گزارا ہو۔
انہوں نے کہا جب بھی شہید سلیمانی بیرون ملک مشنوں سے واپسی کے بعد کرمان آتے تو ان کی سب سے اہم مصروفیت شہداء اور مجاہدین کے اہل خانہ سے ملاقات کرنا تھا، شہداء کے ایک ایک خاندان سے رابطہ کرتے اور ایک بیٹے کی طرح ان کی ماؤں سے ملاقات کرتے اور ان کے حال احوال پوچھتے اور ان کے کاموں کو انجام دیتے۔
شہید سلیمانی کے اس ساتھی نے مزید کہا کہ اگرچہ شہید سلیمانی کی خواہش شہادت تھی اور وہ اپنی تقریروں اور دوستوں کے درمیان بارہا شہادت کی تمنا کرتے رہتے تھے لیکن جب دشمن سے ان کا سامنا ہوتا تھا تو اپنی تمام تر قوت کے ساتھ دشمن کو شکست دینے کی کوشش کرتے جبکہ ان کا مقصد انقلاب اور اسلامی نظام کی سربلندی اور مظلوموں کا دفاع کرنا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ ایسا شخص جو بلاشبہ میدان جنگ کے بہادر ترین لوگوں میں سے ایک تھا جب کرمان میں شہداء کی ماؤں کے درمیان ہوتا تو گھٹنوں کے بل بیٹھتا اور سختی سے آداب اور ادب کا خیال رکھتا اور ان کی تعظیم کرتا۔
شہید سلیمانی کی زندگی کا سب سے اہم پہلو ان کی سادہ زندگی اور عوام کے مسائل پر توجہ تھی
علی زمانی کہتے ہیں کہ شہید سلیمانی کی زندگی کا سب سے اہم نکتہ ان کی سادہ زندگی اور عوام کے مسائل پر توجہ تھی، وہ ہمہ تن عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ جب لوگوں کو حاجی ﴿شہید سلیمانی﴾ کی کرمان میں موجودگی کی خبر ملتی تو وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس چلے آتے اور آپ ان سے ایک کاغذ پر اپنے مسائل بیان کرنے کا کہتے اور وہ ان لیٹرز کو لکھنے میں جتنا بھی وقت لگتا وہیں انتظار کرتے اور بعد میں ایک ایک لیٹر کو نتیجتے تک پہنچانے اور عوام کے مسائل حل کرنے تک پیروی کرتے رہتے تھے۔
زمانی مزید کہتے ہیں کہ بعض اوقات وہ لوگوں کے ساتھ بیت الزہراء یا گلزار شہداء اور حسینہ ثار اللہ میں دیر تک بیٹھے رہتے اور لوگوں کے مسائل سنتے اور اس تمام عرصے میں آپ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب نہیں ہوتی تھی اور وہ اپنے محافظوں کو اپنے اور لوگوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے۔
شہید سلیمانی کے اس دیرینہ ساتھی کا مزید کہنا تھا کہ یہ شخص جو لوگوں کے درمیان مہربان اور عوام دوست تھا تاہم جنگ کے درمیان میں اپنے آپ کو لوگوں پر قربان کردیتا اور اسلام کے دشمنوں کے لیے سخت ترین دشمن بن جاتا تھا۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھی کہ آپ قنات ملک جا کر ان کے آبائی گھر کو دیکھیں، گاؤں کا ایک عام گھر جس میں دوسرے لوگوں کے گھروں سے زیادہ کچھ نہیں تھا اور اس کے والدین زندگی کے آخر تک گاؤں کے دیگر لوگوں کے شانہ بشانہ کام کیا کرتے تھے۔ کرمان میں خود حاجی ﴿شہید سلیمانی﴾ کا بھی ایک عام سا گھر تھا۔ انہوں نے اس گھر کو اہل بیت (ع) کی عزاداری کے لیے وقف کر دیا۔
حاج قاسم سرباز ولایت تھے
شہید سلیمانی کے اس ساتھی نے کہا کہ انہوں نے تمام پہلوؤں میں اور ہر طرح سے عام لوگوں کی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کی اور لوگوں سے ان کی سب سے اہم درخواست یہ تھی کہ وہ دین، اہل بیت (ع) اور ولایت کی اطاعت پر توجہ دیں۔انہوں نے کہا کہ شہید سلیمانی اپنے آپ کو سرباز ولایت ﴿ولایت کا سپاہی﴾ سمجھتے تھے اور اپنے لئے کسی دنیاوی مقام و منصب کے قائل نہیں تھے اور اپنا سب کچھ انقلاب اور عوام کے لیے وقف کر رکھا تھا۔
شہید سلیمانی کے اس ساتھی کا کہنا تھا کہ اخلاص، شجاعت، دشمن سے خوف نہ کھانا، خدا پر توکل اور حضرت فاطمہ (س) سے توسل شہید سلیمانی کی زندگی کے اہم پہلو تھے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ شہید خدا کے سوا کسی چیز سے نہیں ڈرتا تھا اور اس راہ میں مکمل طور پر ولی فقیہ کے مطیع تھے اور ایک عام سپاہی کی طرح دن رات کام کرتے تھے۔
اس بارے میں کہ لوگ شہید سلیمانی سے کیوں بہت زیادہ محبت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جب لوگوں نے ان کی پاکیزہ سانسوں، سادہ زندگی، ان کی شب و روز کی محنت اور یقیناً دشمن کے سامنے ان کی ہمت و بہادری کو دیکھا تو انہوں نے اس خلوص کو دل سے محسوس کیا اور شہید کو اپنوں میں ایک سمجھا۔a