جنگ کب ختم ہوگی؟

Rate this item
(0 votes)
جنگ کب ختم ہوگی؟

غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کو سو سے زیادہ دن گزر چکے ہیں، لیکن ابھی تک اس جنگ کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ کینیڈا کے مفکر مائیکل بریچر اپنی کتاب "کرائسز ان ورلڈ پولیٹکس" میں بحران کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ایک ایسی صورت حال جس میں ممالک کی اہم اقدار اور مفادات کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی بحران آتا ہے تو حکومتوں کو غیر متوقع صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مائیکل بریچر بحران کی شدت اور حد کا تعین کرنے کے لیے درج ذیل چھ عوامل کو بیان کرتے ہیں۔
1۔ جغرافیائی اہمیت
2۔ بحران کا موضوع
3۔ فریقین کے درمیان تشدد کی سطح
4۔ فریقین کی تعداد،
5۔ طاقت کا موازنہ
6۔ بڑی طاقتوں کی مداخلت کی سطح

آیئے غزہ جنگ کے بارے میں مائیکل بریچر کے مندرجہ بالا نظریئے کی روشنی میں یہ تجزیہ کرتے ہیں کہ یہ جنگ کیوں جاری ہے اور اس کے خاتمے کا کتنا امکان ہے۔ پہلا عامل غزہ کی جغرافیائی اہمیت ہے۔ غزہ ایک چھوٹی سی پٹی ہے، لیکن یہ مقبوضہ فلسطین کے قرب و جوار میں واقع ہے اور اسے مغربی ایشیائی خطے میں مزاحمت کے اہم مراکز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے غزہ میں صیہونی حکومت کی شکست اس حکومت کے لیے ناقابل قبول ہے۔

دوسرا عامل بحران کا موضوع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کی حالیہ جنگ کا اصل مسئلہ و موضوع صیہونی حکومت کی کھوئی ہوئی ساکھ ہے۔ اس حکومت کے پاس فوجی اور انٹیلی جنس کے حوالے سے مجموعی طور پر اعلیٰ سطح کی ڈیٹرنس ساکھ تھی، لیکن طوفان الاقصیٰ نے ان سب کو تباہ کر دیا۔ صیہونی حکومت کی کمزوری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ گذشتہ 100 دنوں میں حماس سے اپنے قیدیوں کو بھی رہا کروانے میں ناکام رہی، جس نے تل ابیب کی انٹیلی جنس کی ساکھ پر مزید سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

تیسرا عامل اداکاروں کے درمیان تشدد کی سطح ہے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن میں 1500 سے زائد صہیونی مارے گئے۔ یہ مسئلہ صیہونی حکومت کے لیے اس لئے بھی قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ اسے آبادی کے مسائل کا سامنا ہے اور اس نے مقبوضہ علاقوں میں آبادی کی حمایت کو اپنے فوجی نظریئے کے ستونوں میں سے ایک بنا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت نے غزہ کے خلاف جس قدر تشدد کا استعمال کیا ہے، وہ غیر معمولی سطح ہے، جس کی وجہ سے وہ عملی طور پر تشدد اور نسل کشی کے جاری رہنے سے خوفزدہ نہیں ہے۔

چوتھی وجہ یا عامل فریقین کی کثرت ہے۔ اگرچہ اس جنگ کے دو اہم فریق صیہونی حکومت اور تحریک حماس ہیں، لیکن صرف ان کو اس جنگ کے فریقین نہیں سمجھا جاسکتا۔ امریکہ اور بعض یورپی ممالک نے سرکاری طور پر صیہونی حکومت کا ساتھ دیا ہے۔ دوسری طرف یمن اور لبنان کی حزب اللہ نے بھی اس جنگ میں غزہ اور حماس کی حمایت کی ہے۔ جب کسی بحران میں فریقین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، تو بحران کے خاتمے کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ تاہم غزہ جنگ کے طویل ہونے کی اصل وجہ فریقین کی تعداد نہیں ہے بلکہ صیہونی حکومت اور امریکہ کی اپنے فوجی اہداف کو حاصل کرنے میں ناکامی ایک اہم عنصر ہے۔

پانچویں وجہ عدم مطابقت یا غیر مساوی ہونا ہے۔ صیہونی حکومت اور حماس کی فوجی طاقت نہ صرف برابر نہیں بلکہ اس کا موازنہ تک نہیں کیا جاسکتا ہے۔ صیہونی حکومت کو امریکہ اور کئی یورپی ممالک کی مکمل فوجی و سیاسی حمایت حاصل ہے، جبکہ حماس کے پاس فوجی لحاظ سے کچھ بھی نہیں ہے۔ جنگ کو طول دینے کے لیے فریقین کی فوجی طاقت کی عدم مطابقت ایک اہم عنصر ہے۔

آخر میں چھٹا عنصر بڑی طاقتوں کی مداخلت کی سطح ہے۔ غزہ کی جنگ میں بڑی طاقتوں کی مداخلت صرف اعلانیہ اور سیاسی حمایت تک محدود نہیں ہے بلکہ امریکہ، انگلستان، جرمنی اور فرانس نے غزہ کے خلاف جنگ میں ایک فریق بن کر غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم کو جائز دفاع کا ایک نمونہ بنا کر پیش کیا ہے۔ مغرب کا یہ طرز عمل غزہ کی جنگ کو طول دینے کا ایک اہم اور بنیادی عنصر ہے اور ایسا لگتا ہے کہ غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی، جب تک یہ طاقتیں جنگ کے خاتمے کے لیے سنجیدہ عزم کا مظاہرہ نہیں کریں گی۔

تحریر: سید رضی عمادی

Read 91 times