مظلوموں و محروموں کا انقلاب

Rate this item
(0 votes)
مظلوموں و محروموں کا انقلاب
انقلاب اسلامی ایران کی 45 بہاریں، گویا امت مسلمہ کی بیداری نظم، اتحاد، قوت، جہاد، آزادی، استقلال، استقامت، شہامت، قیادت، سیادت کی بہاریں ہیں، یہ پینتالیس برس گویا نشاط ثانیہ کی بہاریں ہیں، احیاء اسلام کی بہاریں ہیں، ظالمین کے خلاف مظلومین کی سربلندی کی بہاریں ہیں، غاصبین کے خلاف حق لینے والوں کی بہاریں ہیں، استعمار کی شکست اور اسلام کی فتح و کامرانی کی بہاریں ہیں، سامراج کی نابودی اور جہد مسلسل کرنے والوں کے روشن مستقبل کی نوید سنانے کی بہاریں ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران کا پینتالیس برس پہلے ظہور دنیا بھر کے مظلوموں، ستم رسیدہ اور پسے ہوئے طبقات کی قوت، طاقت، ابھار، امید اور انقلاب کے راستے پہ قائم رہتے ہوئے آگے بڑھنے کی بہاریں ہیں۔

بالخصوص جہان اسلام میں اسلام کے آفاقی و الہی نظام کو عملی نفاذ کے ذریعے انسانی سماج اور زندگیوں کو گذارنے و سنوارنے کی عملی شکل و مثال بننے کے پینتالیس بہاریں ہیں، ایسے پینتالیس سال جن میں انقلاب کے وقوع ہونے کی جدوجہد سے لیکر اس کی حفاظت، اس کی تعمیر اس کی ترقی و پیش رفت، اس کے خلاف عالمی، داخلی، مقامی، اپنوں اور غیروں کی سازشوں کو ناکام بنانے کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں، جن سے سبق لیتے ہوئے اس راہ کے راہی اپنی جدوجہد کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران نے اپنے آغاز سے لیکر آج تک دنیا کی سیاست پہ جو اثرات مرتب کئے ہیں ان کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ انقلاب اسلامی ایران کے اثرات ہیں کہ آج مقاومت زندہ ہے، آج مزاحمت جاری ہے، آج ظالموں کے خلاف بڑی سے بڑی قربانی دے کے بھی حوصلہ و ہمت نہیں ٹوٹتا کہ یہی انقلاب کا سبق ہے، آج تو اہل غزہ، اہل فلسطین نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اس انقلاب کے حقیقی فرزند ہیں جو بڑی بڑی طاقتوں کو سبق سکھا رہے ہیں، سازشوں کو ناکام بنا رہے ہیں، مزاحمت کو اوج بخشا ہے بلکہ ہر ایک مزاحمت پسند کو حوصلہ و ہمت دی ہے، آج اہل یمن کو دیکھیں، انقلاب اسلامی سے ان کی گہری وابستگی نے انہیں وہ شرف بخشا ہے جو کسی اور کے نصیب میں نہیں، اہل یمن کی جرات، استقامت، شجاعت اپنی مثال آپ ہیں، انہوں نے سرحد نہ ہونے کے باوجود اسرائیل اور اس کے حواریوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔

اگر غزہ کی اسرائیل کیساتھ حالیہ جنگ میں یمنیوں کا کردار شامل نہ ہوتا تو ممکن ہے اسرائیل و امریکہ جنگ بندی کی جانب نہیں آتا، آج درون خانہ جنگ بندی کی بھیک مانگی جا رہی ہے، آج یمنیوں نے اسرائیل کے سمندری راستے کو بلاک کرکے فلسطینی مظلوموں کی بہت بڑی خدمت سرانجام دی ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ دراصل یہ انقلاب اسلامی کا مرہون منت ہے، انقلاب کے یہ فرزند، انقلاب و نظام کے یہ عشاق روشن و تابناک کردار کی مانند تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کے چمکتے رہیں گے، لبنان کی مقاومت اسلامی سے کون ناواقف ہوگا، انقلاب، اسلام، ولایت فقیہ کے یہ فرزند جہاد، استقامت، قربانیوں کے ذریعے مقدسات کی توہین کے زمہ داروں کو ان کے انجام تک پہنچانے کیلئے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔

دنیائے سیاست و سماجوں کو تغیرات سے دوچار کرنے والے انقلاب اسلامی کے قائد امام خمینی رح نے قیادت کا جو معیار دیا تھا، وہ رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی شکل میں انقلاب اسلامی کو اس کی اصل منازل یعنی انقلاب مہدوی کے ظہور کی راہیں ہموار کرنا اور مظلومین کو صاحب اقتدار بنانے کیلئے بڑی کامیابی سے کوشاں ہیں، انقلاب اسلامی کے پہلے عشرہ یعنی 1979ء سے لے کر 1989ء رحلت امام تک اگرچہ بہت مشکلات رہیں، نوزائیدہ انقلاب پہ بے جا پابندیاں، مسلط کردہ جنگ  جو آٹھ برس تک جاری رہی۔

اس جنگ میں 57 ممالک ایک طرف اور نوزائیدہ انقلابی ایران ایک طرف تھا، اس کے باوجود قربانیوں کی لازوال داستانوں سے اپنی زمین کا دفاع کیا، دشمنوں کو حاوی نہیں ہونے دیا، امریکہ سے دشمنی مملکتوں کو اجاڑ دیتی ہے، حکومتوں کو برباد کر دیتی ہے مگر ان برسوں میں امریکی سازشوں کو ناکام بنانا امام خمینی رح کی الہی قیادت و رہبری کا نتیجہ تھا، اور یہ سازشیں آج بھی کھل کے ہو رہی ہیں،اس وقت بھی موجودہ رہبر بطور صدر مملکت مقابلے پہ سامنے موجود تھے اور آج بھی رہبر معظم، ولی فقیہ کی صورت  موجود ہیں، یہ سعادت و خوشبختی ہے کہ ہم نے امام خمینیؒ کا زمانہ بھی پایا اور آج امام خامنہ ای کے دور میں بھی ان کی سیادت و رہبری سے مستفید ہو رہے ہیں۔

آج کا انقلاب 80ء کے عشرے کا انقلاب نہیں ہے، جس پہ سبھی حملہ آور تھے، آج انقلاب اسلامی ایک ایسی قوت و طاقت ہے جس کا سامنا کرنا امریکہ جیسی نام نہاد سپر پاور کیلئے ممکن نہیں اس لئے کہ اسے علم ہے کہ اگر حملہ کرے گا تو جواب کیسا ملے گا، لہذا ہم نے دیکھا ہے کہ ڈائریکٹ ایران پہ حملہ کی گیدڑ بھبھکیاں تو دی جاتی ہیں، دھمکایا جاتا ہے، ڈرایا جاتا ہے، ماحول بنایا جاتا ہے مگر جرات نہیں کی جاتی، ہاں عراق و شام میں مقاومتی مراکز کو نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں ایرانی سپاہ کے کمانڈرز بھی شہید ہوئے ہیں اور ایران سے متعلق دیگر مزاحمتی و مقاومتی گروہ کے اعلی کمانڈرز بھی نشانہ بنے، مگر ایران کیلئے یہ قربانیاں ہیں۔

یہ شہادتیں کسی بھی طور پریشانی کا باعث نہیں، کہ وہ لوگ شہید ہو رہے ہیں جو تا عمر شہادت کی تلاش میں دنیا کے مختلف محاذوں پہ شہادت تلاش کرتے رہے اور شہادت کو دوست رکھتے تھے، البتہ آج کا ایران کھل کے، اعلانیہ ہر حملے کا جواب دیتا ہے، حتیٰ کرمان میں بم دھماکوں کے ذمہ دار گروہ کو بارہ سو کلومیٹر دور سے میزائل کا نشانہ بناتا ہے۔ یہ آج کا ایران ہے، قوی ایران، مضبوط ایران، خوددار ایران، آزاد ایران، اپنا دفاع کرنے والا ایران، اپنے ساتھ متصل لوگوں کا دفاع کرنے والا ایران، امام خامنہ ای کا ایران، شہداء کا ایران، مجروحین کا ایران، مظلومین کا ایران، مقاومین کا ایران، امام رضا (ع) کا ایران، امام زمانہ (عج) کا ایران۔
 
 
 
Read 246 times