اسلامی انقلاب کے بعد کے پہلے مہینوں سے ہی ایران پر ہتھیاروں کی پابندیوں عائد کر دی گئی اور گذشتہ چار دہائیوں کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران پر یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ایران پر صدام کے حملے کے عروج کے دور میں بھی یہ پابندیاں جاری رہیں۔ انقلاب کے بعد شروع میں سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ انقلاب کی فتح سے پہلے ایران کا بیرونی ممالک پر تقریباً سو فیصد انحصار تھا اور ملک میں ہزاروں مغربی مشیروں کی فوج مہیا تھی، تاہم مسلط کردہ جنگ کے درمیان یہ مشیر ملک چھوڑ کر چلے گئے اور ایران ایسے ہتھیاروں کے ساتھ رہ گیا کہ جسے اسے ٹھیک کرنا بھی نہیں آتا تھا۔ اس وقت مشکل سے چند معمولی ہتھیار ملک میں بنتے تھے۔ انقلاب کے بعد اس صنعت میں غیر معمولی ترقی ہوئی اور اس وقت تقریباً 800 نسل کے مختلف ہتھیار ایران میں بنائے جا رہے ہیں۔ اس پیشرفت کو اس لئے بھی غیر معمولی قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ یہ سب کچھ سو فیصد پابندیوں اور حتیٰ شھید فخری زادہ جیسے سائنسدانوں کے قتل کے باوجود ہوئی۔
آج ایران میزائل، فضائی دفاعی نظام، جدید آبدووزوں، ڈرونز اور دیگر دفاعی پیداوار میں خطے کی بڑی طاقت بن چکا ہے۔ ہتھیاروں اور جنگی سازوسامان کی تیاری اور استعمال میں اس قابلیت نے اسلامی جمہوریہ ایران کو ایک طرف اپنی حفاظتی پیداوار میں مکمل طور پر خود کفیل بنا دیا ہے تو دوسری طرف اس نے ایسی اعلیٰ سطح کی ڈیٹرنس حاصل کر لی ہے، جس کی وجہ سے دشمن ایران پر حملے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اسلامی انقلاب کی 44ویں سالگرہ کے موقع پر ہم اسلامی انقلاب کی دفاعی کامیابیوں پر ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں۔ درج ذیل رپورٹ ان کامیابیوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، جس کا خلاصہ اس آرٹیکل میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
خرمشہر، مہلک ترین بیلسٹک میزائل
ایران کے ہتھیاروں کی ترقی کا سب سے اہم اور اسٹریٹجک میدان، جو اس ملک کو اعلیٰ سطح کی ڈیٹرنس دینے میں کامیاب رہا ہے، وہ میزائل کا میدان ہے۔ انقلاب سے پہلے مغرب والوں نے ایران کو سو کلومیٹر سے زیادہ کی رینج والے میزائل رکھنے کی اجازت نہیں دی تھی، مسلط کردہ جنگ نے ثابت کر دیا کہ عراقی بعث حکومت کی فوج کے برعکس ایران کے پاس کچھ بھی نہیں۔ اس تلخ تجربے نے ایران کو میزائل بنانے پر مجبور کیا۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران نے بیلسٹک اور درست نشانے پر پہنچنے والے میزائلوں کی وسیع اقسام تیار کر لی ہیں، جیسا کہ برطانوی انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز نے ایران کی میزائل صلاحیتوں کے بارے میں ایک رپورٹ میں لکھا ہے "میزائل طاقت کی ترقی نے ایران کو دفاع کی صلاحیت فراہم کی ہے اور اس ملک کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ اپنے درست نشانہ پر لگنے والے میزائلوں پر انحصار کرتے ہوئے سینکڑوں کلومیٹر دور اپنے دشمنوں کو نشانہ بنا سکے۔"
ان سالوں میں ایرانی ماہرین 2000 کلومیٹر تک ٹھوس اور مائع ایندھن کے ساتھ ایرانی میزائلوں اور راکٹوں کو بنانے اور ان کا تجربہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، جس نے دشمن کے دلوں میں دہشت پیدا کر دی ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ایران نے بیرونی مدد کے بغیر 16 سے زیادہ بیلسٹک میزائلوں کو ڈیزائن اور بنا کر، اسلامی جمہوریہ ایران کے مقامی ڈیٹرنٹ طاقت کے حصول میں بڑی پیش رفت کی ہے۔ خرمشہر نامی جدید ترین ایرانی میزائل کی رینج 2000 کلومیٹر ہے اور اس کا وزن تقریباً 20 ٹن ہے۔ یہ گائیڈڈ میزائل ایران کے ارد گرد دشمن کے تمام اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
اس مہلک ترین ایرانی بیلسٹک میزائل کو امریکی میگزین نیوز ویک کی جانب سے ٹرمپ اور نیتن یاہو کے لئے ایک طمانچہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ ایران کے میزائل اثاثے صرف بیلسٹک میزائلوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ دفاعی صنعت میں ایران اسٹریٹجک اصول کی بنیاد پر متنوع رینج کے راکٹ اور کروز میزائل بھی تیار کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ایران میں بنائے گئے ایک کروز میزائل کو "ھویزہ" کہا جاتا ہے۔ صیاد 4 بی میزائل کی بھی اس سال رونمائی کی گئی۔ 300 کلومیٹر تک مار کرنے والا میزائل، جو پہلے 152 کلومیٹر تھا، اب اس کی رینج 300 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔
ہائپرسونک بیلسٹک میزائل
دو ماہ پہلے آئی آر جی سی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر سردار امیر علی حاجی زادہ نے ایران کی طرف سے ہائپر سونک بیلسٹک میزائل بنانے کا اعلان کیا۔ آئی آر جی سی ایرو اسپیس کمانڈر کے مطابق، یہ نظام بہت تیز رفتاری کا حامل ہے اور یہ فضا کے اندر اور باہر جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سردار حاجی زادہ نے میزائل لانچ کرنے کے اعلان کے ایک دن بعد مستقبل میں اس فورس کے ہائپر سونک بیلسٹک میزائل کی نقاب کشائی کا بھی اعلان کیا۔ ہائپرسونک میزائل میزائلوں کی ایک ایسی نسل ہے، جس کی رفتار آواز کی رفتار سے پانج گنا زیادہ ہے اور اس تیز رفتاری کی وجہ سے روایتی دفاعی نظام کے ذریعے انہیں روکنا تقریباً ناممکن ہے۔ روس، چین اور امریکہ کے علاوہ جو اپنے ہائپر سونک میزائلوں کی تیاری کے اعلیٰ مراحل میں ہیں، شمالی کوریا، آسٹریلیا اور بھارت نے بھی ہائپر سونک میزائل بنانے یا خریدنے کا کہا ہے۔ اب ایران بھی ان چند ممالک میں شامل ہوگیا ہے، جن کے پاس ہائپر سونک بیلسٹک میزائل تیار کرنے کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔
ڈرون دشمن پر سایہ کی طرح ہے
راکٹوں کے علاوہ، UAV (ریموٹ کنٹرولڈ ہوائی جہاز) ڈرون انقلاب اسلامی کے بعد کے سالوں میں ایران کی دفاعی صنعت کی دوسری پرکشش اور بہت اہم مصنوعات میں سے ایک ہے۔ ڈرون ایک اہم اور تزویراتی سازوسامان ہے، جو آج ہر جدید فوج میں ضروری ہے۔ دفاعی ماہرین کی کوششوں سے ایران اس میں خود کفیل ہے۔ دعویٰ سے کہا جاسکتا ہے کہ ایران ان تین ممالک میں شامل ہے، جو دنیا میں جنگی اور جاسوسی ڈرون تیار کرتے ہیں۔ اس سال مئی میں مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل محمد باقری نے اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے خفیہ اور زیر زمین ڈرون اڈوں میں سے ایک کا دورہ کیا، جسے 313 اسٹریٹجک ڈرون بیس کہا جاتا ہے۔
زمین میں سینکڑوں میٹر گہرائی میں ڈیزائن اور تعمیر کیے گئے اس خفیہ اڈے کے آپریشنل ہونے کے بعد، اسلامی جمہوریہ ایران خطے میں UAV کی سب سے بڑی طاقت بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ، اس دورے میں، پہلی بار دو نئی کامیابیاں دکھائی گئیں۔ پہلی کامیابی حیدر-1 کروز میزائل ہے۔ اس میزائل کی رینج 200 کلومیٹر ہے اور ہدف کو نشانہ بنانے کے وقت اس کی رفتار 1000 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ حیدر-1 پہلا کروز میزائل ہے، جسے ڈرون سے داغا جا سکتا ہے۔ دوسری کامیابی Haydar-2 کروز ڈرون ہے، جو کہ ہیلی کاپٹر سے چلنے والا ڈرون ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی یو اے وی کی تیاری اور خاص طور پر دفاعی اور فوجی میدان میں شاندار پیش رفت نے دنیا کی توجہ بالخصوص حالیہ برسوں میں اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ 13 دسمبر 2010ء کو ایران نے ایک امریکی لاک ہیڈ مارٹن RQ 170 الٹرا ایڈوانسڈ اور ریڈار سے بچنے والے جاسوس ڈرون کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا، جو ملک کے مشرق میں جاسوسی کر رہا تھا، ایران نے اسے گرایا اور اس کی ریورس انجینئرنگ کرکے اس شعبے میں معرکہ انجام دیا۔
ہمیشہ بیدار دفاع کے ساتھ ایک محفوظ آسمان
کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بڑا اور اہم ملک جو ایک اہم مقام اور حساس علاقے میں موجود ہو اور اس کے پاس مضبوط، فضائی دفاعی نظام موجود نہ ہو۔؟ مسلط کردہ جنگ کے دوران شاید ایران کی سب سے بڑی کمزوری فضائی دفاعی نظام کا نہ ہونا تھا۔ آج ایران دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے، جنہوں نے ملکی صلاحیتوں پر انحصار کرتے ہوئے جدید ترین میزائل شکن دفاعی نظام تیار کیا ہے۔ ایسا نظام جو ملک کی دفاعی ڈھال کے طور دشمنوں کو کسی بھی ممکنہ جارحیت پر پچھتانے پر مجبور کر دے۔ ان سسٹمز کا شاہکار Bavar 373 کہلاتا ہے، جو کہ روسی S-300 ماڈل سے بنایا گیا ہے، لیکن یہ بہت زیادہ جدید ہے اور ملک کے اہم ترین حصوں بشمول بعض جوہری مقامات کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ ایک جدید روسی دفاعی نظام ایس تین سو، جو ایران کو 2008ء میں دیا جانا تھا، لیکن سلامتی کونسل کی پابندیوں اور روسیوں کی بداعتمادی نے اس معاملے کو التوا میں ڈال دیا۔ اس بات نے ایران کو مجبور کیا کہ وہ مقامی دفاعی نظام خود بنانے کے بارے میں سوچے۔
ایران نے ان حالات میں باور 373 کے ڈیزائن اور تعمیر کا آغاز کیا اور یہاں تک کہ جب روس کی طرف سے 1996ء میں S-300 سسٹم دینے کا اعلان کیا تو تب بھی اس نے باور 373 کی تعمیر کو نہیں روکا۔ اس نظام کی نقاب کشائی اس وقت کے صدر نے کی تھی۔ "باور 373" ملکی سطح پر بنایا گیا سب سے پیچیدہ اور اہم میزائل ڈیفنس سسٹم ہے اور اسے ایران کی تاریخ کا سب سے پیچیدہ دفاعی منصوبہ سمجھا جانا چاہیئے، جسے ملک کے اندر ایرانی ماہرین نے ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں ڈیزائن، تعمیر، تجربہ اور آپریشنل کیا تھا۔ ملکی دفاعی صنعت کے اس شاہکار کی کیا خصوصیات ہیں، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ معروف آہنی گنبد کی طرح ایران کی سرزمین کا دفاع کرسکتا ہے۔
وزارت دفاع اور آرمڈ فورسز سپورٹ کے انفارمیشن بیس کے مطابق، Bavar 373 ہتھیاروں کے نظام میں دو سرچ اینڈ انٹرسیپشن ریڈار ہیں اور سرچ اینڈ ڈیٹیکشن ریڈار کی زیادہ سے زیادہ رینج 320 کلومیٹر اور انٹرسیپشن کی زیادہ سے زیادہ رینج 260 ہوگی۔ باور 373 سرچ اینڈ ڈسکوری ریڈار بیک وقت 300 اہداف کی نشاندہی کرنے کے قابل ہے۔ دوسری جانب اس سسٹم کا انٹرسیپٹر ریڈار بیک وقت 60 اہداف کو روکنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ باور 373 انٹرسیپٹر ریڈار کی نمایاں خصوصیات میں بہت کم ریڈار کراس سیکشن کے ساتھ چھپے ہوئے اہداف کا پتہ لگانے کی صلاحیت ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس سسٹم کے لیے کوئی پوشیدہ ہدف نہیں ہوگا۔ ایران کے فضائی دفاع کے دیگر اہم نظاموں میں، مقامی ساختہ سوم خورداد نامی نظام کا نام لیا جاسکتا ہے، جو 2018ء میں جدید امریکی گلوبل ہاک ڈرون کی تباہی کا باعث بنا اور اس نے عالمی شھرت پائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و تنظیم: علی واحدی