ایران کے سفارتخانہ پر اسرائیلی حملہ شکست کا اعتراف

Rate this item
(0 votes)
ایران کے سفارتخانہ پر اسرائیلی حملہ شکست کا اعتراف

غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے یکم اپریل کو دمشق میں ایران کے سفارتخانہ پر حملہ کیا ہے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق ایران کی القدس فورس کے اعلیٰ سطحی کمانڈر جنرل زاہدی سمیت سات افراد کی شہادت کی تصدیق ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اس قدر جنون کا شکار ہے کہ سفارتخانہ پر بھی حملہ سے گریز نہیں کیا۔ سرزمین فلسطین پر قائم کی جانے والی صیہونیوں کی اس جعلی ریاست نے ہمیشہ خطے میں دوسرے ممالک اور اقوام کے خلاف دہشت گردانہ عزائم جاری رکھے ہیں۔ آج بھی غزہ میں اپنی شکست کا بدلہ نہ لینے کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار صیہونی غاصب حکومت کبھی لبنان میں حماس رہنماؤں کو قتل کرتی ہے تو کبھی شام میں ایران کے عہدیداروں کو نشانہ بنایا جا تا ہے۔

حقیقت میں غاصب صیہونی حکومت غزہ میں چند سو حماس اور جہاد اسلامی کے نوجوانوں کے سامنے شکست خوردہ ہوچکی ہے۔ غزہ میں ایک سو اسی دن سے جاری جنگ میں اسرائیل کی ناجائز حکومت کو ایک بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ تل ابیب میں صیہونی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوچکے ہیں۔ دسیوں ہزار صیہونی آباد کار نیتن یاہو کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ نیتن یاہو کی حکومت یعنی اسرائیل نابودی کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ غاصب صیہونی حکومت سنہ1948ء سے اب تک ہمیشہ خطے میں کئی جنگوں کا آغاز کرنے کا ماہر رہا ہے۔ ہمیشہ جنگوں کو مقبوضہ فلسطین سے باہر لڑائی کی ہے۔ جس کے نتیجہ میں ہمیشہ عرب افواج کو نقصان ہوا ہے۔ عرب علاقوں میں اسرائیل کی توسیع پسندی کو تقویت ملی ہے۔

لیکن اس مرتبہ غزہ کا معرکہ مختلف ہوچکا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اس جنگ میں خود اندر لڑائی میں مشغول ہے۔ اسرائیل کی امریکہ کے ساتھ مل کر پہلے دن سے کوشش ہے کہ جنگ کو فوری طور پر غزہ سے باہر نکال کر خطے میں پھیلا دیا جائے، تاکہ اسرائیل کو سکون میسر ہو، لیکن اس مرتبہ کی جنگ بھی منفرد ہے۔ غزہ اور مقبوضہ فلسطین کے اندر جاری رہنے کے ساتھ ساتھ جنوبی لبنان کے محاذ سے بھی صیہونیوں کے لئے زمین تنگ کی جا چکی ہے۔ یمن کے انصاراللہ اور عراق کے حشد الشعبی اور کتائب حزب اللہ نے بحیرہ روم اور بحیرہ احمر میں غاصب صیہونی حکومت کی معاشی ناکہ بندی کر دی ہے، جس کی وجہ سے اسرائیل کی رہی سہی طاقت بھی دھڑام ہوچکی ہے۔

یہ تمام حالات غاصب صیہونی حکومت کی شکست خوردہ عکس بندی کر رہے ہیں۔ایسے حالات میں اسرائیل شدید ترین دباؤ اور تناؤ کا شکار ہو کر شام اور لبنان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور مسلسل شام میں ایران کے فوجی عہدیداروں کو کہ جو شام کی حکومت کی درخواست پر شام کے ساتھ مختلف سکیورٹی منصوبوں میں کام میں مصروف ہیں، ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یکم اپریل کو ایران کے سفارتخانہ کو اسرائیلی دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا ہے، جو تمام تر عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ کیا اب کوئی سلامتی کونسل جاگے گی؟ کیا افغانستان اور عراق کی طرح غاصب اسرائیل کے خلاف بھی نیٹو کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی؟ اگر ایسا نہیں کیا جا رہا ہے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اقوام متحدہ کا نظام ہو یا پھر نیٹو جیسے الائنس، یہ سب کے سب اس لئے بنائے گئے ہیں کہ ایشیائی اور افریقی ممالک کے قدرتی ذخائر کو ہڑپ کرکے امریکہ اور مغربی حکومتوں کے قدموں میں پیش کریں۔

دمشق میں ایران کے سفارتخانہ پر حملہ اور عہدیداروں کی شہادت کے واقعہ کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کو اس طرح کی بدمعاشی اور دہشتگردانہ کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ کیونکہ اسرائیل صرف طاقت اور مزاحمت کی زبان ہی سمجھتا ہے۔ مبصرین کا یہی کہنا ہے کہ اسرائیل کی شام اور لبنان میں اس طرح کی کارروائیاں جس میں حماس اور ایران کے اعلیٰ سطحی عہدیداروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جانا واضح طور پر اسرائیل کی شکست اور کمزوری کو ظاہر کر رہا ہے، تاہم عالمی نظام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کو لگام دے۔

اسرائیل کی جانب سے دمشق میں ایران کے سفارتخانہ پر حملہ کے بعد دنیا بھر میں دیگر ممالک کے سفارتخانوں کے سکیورٹی تحفظات بھی بڑھ گئے ہیں۔ ان حالات میں اب اقوام متحدہ پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ ویانا کنونشن کی قراردادوں پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ ایک طرف اقوام متحدہ نے اس غاصب اور ناجائز ریاست کو وجود بخشا ہے تو دوسری جانب اب تمام تر غیر قانونی اقدامات پر خاموش تماشائی ہے۔ ایران کے سفارتخانہ پر اسرائیلی حملہ کے بعد سے اب

ایران کا جائز حق ہے کہ وہ بھی دنیا بھر میں اسرائیل کے سفارتخانوں کو نشانہ بنائے اور اپنے شہریوں کی قیمتی جانوں کا انتقام لے اور اس معاملہ میں اب دوہرا معیار رکھنے والی اقوام متحدہ کو بھی خاموش تماشائی ہی رہنا چاہیئے۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

Read 168 times