یوم القدس اور ہماری ذمہ داریاں

Rate this item
(0 votes)
یوم القدس اور ہماری ذمہ داریاں

 غزہ اس وقت ایسا میدان جنگ ہے، جس میں مظلوم فلسطینی اور ظالم صیہونی ناجائز ریاست اسرائیل برسر پیکار ہیں۔ فلسطینیوں پر ہر وقت موت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ آبادیاں کھنڈرات بن چکی ہیں۔ ہسپتالوں پر بھی حملے جاری ہیں۔ مسلم عرب ریاستیں قریب ہی موجود تو ہیں مگر مدد کی جرات نہیں رکھتیں۔ مزاحمتی تحریک حماس کے مجاہدین اپنی طاقت کے مطابق اسرائیلی مظالم کا جواب دے رہے ہیں۔ دنیا بھر میں عوام سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں مگر حکمران بے حسی اور بے شرمی کی چادر لئے سو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کی قراردادیں بھی ظالم اسرائیل نے ہوا میں اڑا دی ہیں۔ گویا عالمی طاقتیں بھی اسرائیل کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق 7 اکتوبر 2023ء کو طوفان الاقصیٰ کے نام سے اسرائیل میں آپریشن شروع کرنیوالی حماس کے مجاہدین بڑی تعداد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، جبکہ فلسطینی عوام کی قربانیوں کا لفظوں میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ بہادری اور صبر کی تصویر یہ فلسطینی عوام کہ جنہیں پتہ ہے کہ اگلے ہی مرحلے میں اسرائیلی بمباری میں مارے جائیں گے لیکن وہ اپنی سرزمین کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔

ماہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی اپنے اختتام کو بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ 44 سال سے جمعة الوداع بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ کی اپیل پر یوم القدس کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں سے عالمی سطح پر اظہار یکجہتی کا آغاز انقلاب اسلامی کے ابتدائی دنوں میں ہی 1979ء میں شروع ہوگیا تھا۔ رہبر امت کی دوراندیشی کے باعث عالمی سطح پر مسلمانوں کو ہم آواز کرنے کا آغاز بھی انقلاب اسلامی کیساتھ ہی کر دیا گیا تھا۔ اس کے فکری اثرات دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مرتب ہوئے۔ سرور کائنات خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم ولادت باسعادت عید میلادالنبیﷺ کے عنوان سے پاکستان میں جس جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے، اس کی مثال شاید کہیں اور نہیں ملتی۔ برادران اہلسنت کے مطابق 12 ربیع الاول اور شیعہ نقطہ نظر سے 17 ربیع الاول کو یوم ولادت سید المرسلین پر اختلاف ہے، لیکن رہبر انقلاب امام خمینیؒ نے امت مسلمہ کو اختلافی نقطے پر متحد کرنے کی ابتدا 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول تک "ہفتہ وحدت" کا نام دے کر دی۔ دنیا بھر میں اعلان کیا کہ عید میلادالنبیﷺ کو پورے ہفتہ منائیں گے۔

میں تحریک جعفریہ کے کارکن کے طور پر اہلسنت برادران کی طرف سے منعقد کئے گئے عید میلاد النبیﷺ کے جلوسوں میں شریک ہوتا رہا ہوں۔ اس حوالے سے ریلوے اسٹیشن پر جناب آفتاب ربانی کی قیادت میں عید میلاد النبیﷺ کے پروگرام کا انعقاد اور بعد ازاں درود و سلام کا ورد کرتے ہوئے جلوس کا داتا دربار پر اختتام، شرکاء جلوس کی دستار بندی رسول اللہﷺ سے عقیدت کا ایک انداز تھا۔ امام خمینیؒ کی وفات کے بعد بھی اسلامی جمہوریہ ایران نے بانی انقلاب اسلامی کے مشن کو جاری رکھا۔ اتحاد امت کی فضا کے قیام کیلئے "ہفتہ وحدت" کی مناسبت سے ماہ ربیع الاول میں تہران میں کانفرنس کا انعقاد اور اس میں دنیا بھر سے سنی شیعہ علماء کی شرکت اتحاد کے عملی اظہار کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ اسی طرح ماہ رمضان المبارک میں حسن قرات کے مقابلے کی میزبانی ایران کا اچھا اقدام ہے۔ حال ہی میں مانسہرہ کے ایک نوجوان قاری ابوبکر بن ثاقب ظہیر یہ مقابلہ جیت کر آئے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ امام خمینیؒ کے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے پیغام کی روشنی میں پاکستان میں قائد ملت اسلامیہ نمائندہ ولی فقیہ علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی اپیل پر پاکستان میں یوم القدس کے جلوس نکالنے کی ابتدا کی گئی۔ تحریک جعفریہ اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے لاہور میں ناصر باغ سے پنجاب اسمبلی ہال چوک تک پہلا جلوس نکالا تو پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کر دیا۔ اسی جلوس میں ہمارے دوست سید غضنفر علی بخاری بھی شامل تھے۔ جب پولیس سے ہمارا آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے پولیس سے ڈنڈے چھین کر انہیں پر برسائے اور پھر پولیس نے بھی ہم پرتشدد کیا۔ کارواں چلتا رہا، قیادت تبدیل ہوئی۔ ایران میں امام خمینیؒ کی جگہ آیت للہ سید علی خامنہ ای اور پاکستان میں علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی جگہ علامہ ساجد علی نقوی قائد منتخب ہوئے تو انہوں نے بھی فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ جو آج تک جاری ہے۔ یوم القدس کے جلوسوں کو منظم کرنے میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور آئی ایس او کے نوجوانوں کا قابل فخر کردار ہمیشہ ناقابل فراموش رہا ہے۔

مجھے یہاں حماس کی جراتمندانہ جدوجہد کو سلام ضرور پیش کرنا ہے کہ جس نے فلسطینیوں کی آواز بن کر اسرائیل کی سینے پر چڑھ کر اسے باور کروایا ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور پھر اس نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے کو بھی جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ لبنان امت مسلمہ کا جرات مند بازو ثابت ہوا ہے، جس نے حماس کے شانہ بشانہ فلسطینی مسلمانوں کیلئے اسرائیل کیخلاف اپنا عسکری کردار ادا کیا ہے۔ یمن کے بہادر حوثیوں کی تنظیم انصاراللہ نے سمندر میں امریکی بحری بیڑوں پر حملے کرکے اسرائیل کی مدد کرنیوالوں کیلئے مشکلات پیدا کی ہیں اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی مدد کیلئے آنیوالے مجاہدین کی فہرست میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔ البتہ عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ افغانستان اور عراق میں خود کو مجاہدین کہنے والے عسکری گروہ داعش، طالبان، القاعدہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل کیخلاف لڑتے کہیں نظر کیوں نہیں آرہے۔؟

افسوس ہے ان عرب ریاستوں اور مسلمان ممالک پر، جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرکے فلسطین کے کیس کو عالمی سطح پر کمزور کیا۔ اطلاعات ہیں کہ امریکہ مزید مسلم ریاستوں پر دباو بڑھا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔ حماس کو جب محسوس ہوا کہ متحدہ عرب امارات کے بعد مزید کئی عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں تو فلسطینی مزاحمتی تحریک نے ”اب نہیں تو کبھی نہیں“ نعرے کے تحت طوفان الاقصیٰ آپریشن شروع کرکے ان ریاستوں کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عزائم کو بے نقاب کرکے شرمندہ تعبیر ہونے کا عمل روک دیا۔ 1967ء میں عرب ممالک نے اسرائیل سے اپنے علاقے واپس لینے کے لیے جنگ کی، مگر اسے سات دن سے زیادہ جاری نہ رکھ سکے تھے، مگر 7 اکتوبر سے تادم تحریر اسرائیل کی اکیلے حماس سے جنگ جاری ہے۔ اس میں ابھی تک اسرائیل کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے، حالانکہ پورا عالم کفر صیہونی ریاست کی پشت پناہی کر رہا ہے، مگر وہ حماس کو شکست نہیں دے سکا۔ ہاں شہادتیں ہوئی ہیں، مزید بھی ہوں گی لیکن یہ حقیقت ہے کہ کوئی آزادی شہادتوں کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ مظلوم فلسطینیوں کا خون اور سسکیاں ضرور رنگ لائیں گی۔

بحیثیت پاکستانی مسلمان، مجھے شرم محسوس ہو رہی ہے کہ یورپ کا کوئی ایک ملک بھی نہیں کہ جس میں فلسطین کی حمایت میں اسرائیلی مظالم پر عوام نے احتجاج نہ کیا ہو، مگر مسلم ممالک نے چپ سادھ رکھی ہے۔ پاکستان میں توقع تو یہ کی جا رہی تھی کہ حماس کے لیے مالی امداد ادویات اور خوراک بھیجی جائے گی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نہ حکومت کی سطح پر حماس کے نوجوانوں کی حمایت میں کوئی اعلان کیا گیا اور نہ ہی فلسطین کے لاکھوں زخمیوں کے علاج کیلئے کوئی میڈیکل ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، جو کہ ان مظلوم انسانوں کے علاج کیلئے مددگار ثابت ہوتیں۔ ہاں جماعت اسلامی کی الخدمت فاونڈیشن کی خدمات غزہ میں قابل تعریف ہیں، جبکہ اس سال یوم القدس کے موقع پر جماعت اسلامی کا جلوس بھی فلسطینیوں کی حمایت میں اضافے کا باعث ہوگا۔ آج میں پاکستان کے عوام سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ یوم القدس کے جلوسوں میں بلا تفریق مذہب و مسلک تمام بنی نوع انسان جو انسانیت میں رواداری کو ترجیح دیتے اور مظلوموں کے ساتھی ہیں، وہ فلسطین پر ہونیوالے ظلم وستم، ریاستی دہشت گردی، خواتین اور نوزائیدہ بچوں کے قتل کیخلاف سڑکوں پر نکلیں اور مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔

تحریر: سید منیر حسین گیلانی

Read 186 times