مغرب میں بار بار توہین قرآن کی جا رہی تھی، دنیا بھر کے مسلمانوں کے کلیجے جل رہے تھے، مختلف ممالک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے جا رہے تھے۔ چشم فلک نے دیکھا کہ ایک سید اقوام متحدہ میں پہنچا، ہاتھ میں اپنے جد پر نازل ہونے والی اللہ کی مقدس آخری کتاب قرآن اٹھائے ہوئے ہے۔ اس نے دنیا کی منافقت کو چاک کرتے ہوئے کہا: قرآن جل نہیں سکتا، یہ ابدی ہے، جب تک زمین زمین اور وقت وقت رہے گا، قرآن باقی رہے گا۔ توہین اور تحریف کی آگ حقیقت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس کے ساتھ سید نے قرآن کو دنیا کے سامنے لہرایا اور پھر ادب سے چوم کر آنکھوں سے لگا لیا۔ کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچی کہ ہمارا مقدمہ اقوام متحدہ میں لڑا گیا۔
کچھ رور پہلے سید پاکستان کے دور پر تشریف لائے، ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا، سید نے کافی باتیں کیں، مگر جو جذبہ اہل فلسطین کے لیے سید کے وجود میں تھا، ان کی تقریر سے جھلک رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ ان کے بس میں ہو تو ابھی اسرائیل پر حملہ کر دیں۔ غزہ کی ماوں، بہنوں، بچوں اور جوانوں کے لیے ان کے دل میں تڑپ تھی۔ ہسپتالوں پر ہونے والے حملوں اور نہتے فلسطینیوں کی شہادتوں کو نم آنکھوں اور تڑپتے دل کے ساتھ بیان کر رہے تھے۔ ملت پاکستان کی عظمت کو بیان کر رہے تھے اور ان کی اہل فلسطین کے ساتھ والہانہ محبت کا ذکر کر رہے تھے۔ تمام مکاتب فکر کے علماء، سکالرز، پروفیسرز، بیروکریٹس اور سیاستدان بڑی تعداد میں وہاں موجود تھے۔ یہ سب ایسے نہیں آئے بلکہ انہیں سید کی محبت کھینچ لائی ہے۔
یہ بڑا المناک حادثہ ہے، اس حادثے میں خادم الرضا (ع) اور اسلامی جمہوریہ ایران کے آٹھویں صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو قیز قلعہ سی ڈیم کا افتتاح کرکے تبریز شہر کی جانب لوٹتے وقت حادثے کا شکار ہوگیا۔ اس سانحے میں صدر سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ تبریز شہر کے امام جمعہ اور ولی فقیہ کے نمائندے حجت الاسلام آل ہاشم، وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین امیر عبداللہیان، صوبہ مشرقی آذربائیجان کے گورنر مالک رحمتی، صدارتی محافظوں کی ٹیم کے سربراہ جنرل سید مہدی موسوی، حفاظتی ٹیم کے کئی دیگر ارکان اور ہیلی کاپٹر کے پائیلٹس بھی شہید ہوئے ہیں۔
دنیا بھر کی آزاد اقوام ایرانی صدر جناب آیۃ اللہ ابراہیم رئیسی کی وفات پر اظہار تعزیت کر رہی ہیں کہ ایک بڑا رہنماء چلا گیا۔ حکومت پاکستان نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہونے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان میں ایک روزہ عمومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔پاکستان کے وزیراعظم "شہباز شریف" نے ایک پیغام میں ہیلی کاپٹر کے دردناک حادثے میں ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی اور ان کے اعلیٰ سطحی وفد کی شہادت پر تعزیت کی ہے۔ اپنے تعزیتی پیغام میں انہوں نے اعلان کیا: "پاکستان ایران کے صدر اور ان کے ساتھیوں کے احترام اور ایران کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر ایک دن کا سوگ منائے گا، اس میں پاکستان کا پرچم سرنگوں رہے گا۔"
حماس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای دام عزہ، ایرانی حکومت اور ایرانی عوام کے ساتھ اس بے پناہ نقصان پر تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے، حماس نے فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت کرنے پر ایرانی رہنماؤں کی تعریف کی۔ حماس اور اہل فلسطین کی حمایت سید کی زندگی کا مشن تھا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ کل اتوار کو آذربائیجان کے صدر کے ہمراہ ڈیم کے افتتاح کے بعد تقریر میں آیۃ اللہ ابراہیم رئیسی نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے لیے ایران کی غیر مشروط حمایت کا اعادہ کیا تھا۔
ایرانی صدر نے کہا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین مسلم دنیا کا سرفہرست مسئلہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ایران اور آذربائیجان کے عوام فلسطین اور غزہ کے عوام کی حمایت اور صہیونی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ پتے کی بات یہ ہے کہ آیۃ اللہ رئیسی نے آذری عوام کی بات کی، حکومت کی بات نہیں کی، کیونکہ حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھتی ہے۔ امت مسلمہ کا بالعموم اور ملت ایران و فلسطین کا بالخصوص بڑا نقصان ہوا ہے۔ تین سال کے مختصر عرصے میں آیۃ اللہ سید ابراہیم رئیسی نے بین الاقوامی سطح پر موثر شناخت قائم کی تھی۔ اسی طرح ایران کی خارجہ پالیسی اور تنازعات کو مواقع میں تبدیل کرنے کی آپ کی دانشمندی نے بھی ایران کو بڑا فائدہ پہنچایا۔ سعودی عرب سے سفارتی تعلقات کی چائنہ کی ذریعے بحالی نے بیک وقت کئی پیغام دیئے۔
اسی طرح مہسا امینی سے لے کر اسرائیل پر حملے تک بڑے چیلنجز آئے، سید نے بڑی حکمت اور دانش سے انہیں حل کیا۔ دنیا حیران ہے کہ پابندیوں کے باوجود ایران کی معیشت اس تیز رفتاری سے کیسے آگے بڑھ رہی ہے؟ ملت ایران مشکلات میں بہتر انداز میں آگے بڑھتی ہے اور مشکلات سے زیادہ مضبوط ہوکر نکلتی ہے۔ جب اسلامی جمہوری ایران کی پوری پارلیمنٹ اڑا دی گئی تھی، لوگ کہہ رہے تھے کہ انقلاب ابھی گیا کہ ابھی گیا۔ چشم فلک نے دیکھا کہ انقلاب وہیں رہا اور پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر ابھرا۔ آٹھ سالہ جنگ ایک بڑا مشکل مرحلہ تھا، مگر اسلامی جمہوری ایران کی قیادت بڑی دانشمندی سے اس سے نکلی۔
امام خمینیؒ کی وفات بھی بڑا مشکل مرحلہ تھا، مگر انقلاب کی نئی قیادت نے خط امام خمینیؒ کی پیروی میں انقلاب کو مضبوط سے مضبوط تر کیا۔ انقلاب کے اندرونی اور بیرونی دشمن ہر بار مایوس و نامراد ہوئے اور اللہ کی نصرت سے انقلاب پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ ابھرتا رہا۔ اس مشکل گھڑی میں ہم ملت ایران بالخصوص رہبر معظم دام ظلہ سے تعزیت کرتے ہیں، امید کرتے ہیں کہ یہ مشکل وقت اہل ایران کو مزید مضبوط کر جائے گا۔ آیۃ اللہ ابراہیم رئیسی کے ٹویٹر اکاوئنٹ پر آج یہ آیت لگائی گئی، جو حقیقت حال کی خوبصورت عکاسی کرتی ہے: سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ﴿١٠٩﴾ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿١١٠﴾ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ﴿١١١﴾الصافات "۱۰۹۔ ابراہیم پر سلام ہو۔۱۱۰۔ ہم نیکو کاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔۱۱۱۔ یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔"
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس