نہ اولمپکس نہ آدم کشی

Rate this item
(0 votes)
نہ اولمپکس نہ آدم کشی
فرانس میں 2024ء کے اولمپکس کے موقع پر، اولمپکس گیمز میں صیہونی حکومت کی ٹیم کی شرکت کی عالمی مخالفت میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور اسرائیل کو ان مقابلوں سے باہر کرنے کے لیے "نو اولمپکس، نو جینوسائیڈ"  "no Olympic  no genocide" جیسی مہم شروع کی گئی۔ غزہ پٹی پر صیہونی نسل کشی کو 10 ماہ گزر چکے ہیں۔ 39 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 90 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے ایک چوتھائی خواتین اور بچے ہیں۔ صہیونیوں کے جرائم کے خلاف مختلف ممالک میں مظاہرے کیے گئے، لیکن عالمی طاقتوں نے ان مظاہروں سے لاتعلقی کا مظاہرہ کیا۔ اب پیرس اولمپکس کے باضابطہ آغاز کے موقع پر فرانس کے مختلف شہروں سمیت پوری دنیا میں صیہونیوں کے خلاف مظاہرے بڑھ گئے ہیں۔

پیرس اولمپک میں فٹبال کے مقابلوں میں ایک میچ میں اسرائیل اور مالی کی ٹیمیں آمنے سامنے آئیں۔ میزبان ملک فرانس کے لیے اس گیم کے اہم خدشات میں سے ایک میچ کے دوران اسرائیلی کھلاڑیوں کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا۔ کھیل کا آغاز پیرس کے پارک ڈی پرنس اسٹیڈیم کے باہر سکیورٹی فورسز کی بڑی موجودگی سے ہوا۔ اسرائیلی ٹیم کے ارکان پولیس کی بھاری نفری کی نگرانی میں پہنچے، جن کے آگے موٹر سائیکل سوار تھے اور ان کے پیچھے فسادات پر کنٹرول کرنے والی اینٹی ٹیریسٹ پولیس کی کئی گاڑیاں تھیں۔ مسلح پولیس اہلکار سٹیڈیم میں گشت کر رہے تھے، لیکن سٹیڈیم کے باہر کا ماحول پرسکون تھا۔

مالی کے شائقین نے فخر سے اپنا قومی ترانہ گایا، لیکن جب اسرائیل کے ترانے کی باری آئی تو فوراً ہی ہوٹنگ اور سیٹیاں بجنے لگیں۔ اسٹیڈیم میں ترانے بجانے والے اسپیکر سسٹم نے اپنی آواز کو غیر معمولی بلند کرکے اسٹیڈیم میں موجود ہجوم کے شور کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن اسرائیل کے خلاف نعروں کی گونج کم نہ ہوسکی۔ غزہ کے عوام بالخصوص خواتین اور بچوں کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں اور فلسطینی کھیلوں کی برادری کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم وہ اہم وجہ تھی، جس کی وجہ سے اولمپکس کے عالمی کھیلوں کے مقابلے میں صیہونی حکومت کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

صیہونیوں کے جرم کے نتیجے میں فلسطین میں 350 کھلاڑی، ریفری اور کھیلوں کے کارکن شہید ہوئے ہیں جبکہ صیہونی حملوں میں کھیلوں کی پچپن عمارتیں زمین بوس ہوگئیں اور کئی اسٹیڈیمز کو حراستی مرکز میں تبدیل کر دیا گیا۔اولمپک مقابلوں کے اندر اور باہر جہاں لوگ صہیونیوں کے مظالم اور جرائم پر احتجاج کر رہے ہیں، وہیں بین الاقوامی کھیلوں کے اداروں کی کھلی اور ننگی منافقت پر بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ غزہ میں واضح نسل کشی کے باوجود فرانسیسی اولمپکس میں اسرائیلی کھلاڑیوں کی موجودگی کو درست قرار دیا گیا جبکہ تقریباً دو سال قبل یورپی فٹ بال یونین (UEFA) نے روسی کلب ٹیموں کے یورپی مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے علاوہ روس کی قومی فٹ بال ٹیم کو قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ سے باہر کر دیا گیا تھا۔

سویڈن سے تعلق رکھنے والی سیاسی ماہر اور انسانی حقوق کی محافظ "ہیلن سلرٹ" نے کہا ہے کہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی جنوبی افریقہ، بیلاروس اور روس کے کھلاڑیوں پر پابندیاں لگانے کی تاریخ رکھتی ہے، لیکن غزہ جنگ کی وجہ سے اسرائیل پر پابندیاں لگانے کی بات نہیں کرتی۔ اس سے مغربی دنیا کی منافقت ظاہر ہوتی ہے۔ ایک فلسطینی سیاسی تجزیہ کار کامل ہاووش نے بھی کہا کہ اگر کھلاڑیوں کو اسرائیلی حریفوں کے خلاف کھیلنے سے انکار پر کسی طرح کی پابندی عائد کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نہ صرف اسرائیل کو اولمپکس میں شرکت کی اجازت دے رہی ہے بلکہ وہ اسرائیل کے جرائم کی مخالفت کرنے والوں کو بھی سزا دینے پر تلی ہوئی ہے۔

امن کارکن اور آئرش اسپورٹس کمیونٹی کی رکن ربیکا او کیف نے بھی کہا ہے کہ اولمپکس کھیل میں اسرائیل کے جرائم کو دھویا جارہا ہے، تاکہ غزہ میں ہونے والی نسل کشی پر پردہ ڈالنے کا ایک اور موقع فراہم کیا جاسکے، لیکن دوسری طرف نیشنل اولمپک کمیٹی صرف روس پر پابندیاں لگانے پر مرکوز ہے۔ فرانسیسی پارلیمنٹ کے رکن تھامس پورٹس نے بھی کہا ہے کہ فرانسیسی سفارت کاروں کو چاہیئے کہ وہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اسرائیلی پرچم اور ترانہ بجانے پر پابندی عائد کرے، جیسا کہ روس کے خلاف کیا جاتا رہا ہے۔
تحریر: سید رضی عمادی
 
 
 
Read 46 times