تہران میں حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایک حملے میں شہید کر دیا گیا ہے۔ ان کے ہمراہ ان کا ایک محافظ بھی شہادت کے رتبے پر فائر ہوا ہے۔ یہ حملہ تہران میں اس وقت ہوا، جب اسماعیل ہنیہ ایران کے نومنتخب صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے پہنچے ہوئے تھے۔ انہوں نے گذشتہ شب رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای کیساتھ ملاقات بھی کی تھی اور رات دو بجے ان کی رہائش گاہ پر حملہ کرکے انہیں شہید کر دیا گیا۔ پنتالیس سال میں انقلاب کی راہ پر چلنے کی سزا میں دشمن امریکہ و اسرائیل نے دو ایرانی صدور، کئی اہم ترین سائنسدانوں، جنرل قاسم سلمانی سمیت کئی فوجی افسران، ہزاروں ماہر اشخاص کو ایسی ہی بزدلانہ کارروائیوں میں شہید کیا ہے۔ ایران کے انقلاب اسلامی کو کمزور کرنے کیلئے دشمن نے ایسے اقدامات کئے، بلکہ امریکہ و اسرائیلی دشمنی کی سزا دینے کی کوشش کی گئی۔
پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ سابق ائیر چیف مصحف علی میر شہید کو امریکہ کیخلاف جانے پر شہید کیا گیا تھا۔ سابق صدر اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق نے بھی کہتے ہیں ڈومور سے اس وقت انکار کر دیا تھا، جس پر ان کے طیارے میں آموں کی پیٹیاں رکھوا کر انہیں بھی راستے سے ہٹا دیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ تہران کے اندر دشمن نے نشانہ بنا کر ایران کے سکیورٹی لیپس کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ سکیورٹی لیپس نہیں، بلکہ دشمن کی مکارانہ کارروائی ہے۔ جس طرح تہران میں اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس طرح کسی کو بھی مارنا مشکل نہیں، خود امریکہ میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی قتل ہوئے، کہاں تھی سی آئی اے کی سکیورٹی۔؟ امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر انتخابی مہم کے دوران حال ہی میں قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں سیکنڈوں کی مہلت سے وہ بچ گیا۔ اس کو کیا کہیں گے؟ کہ قاتل کیسے اپنے ہدف پر پہنچ گیا؟ ایسے اہداف کو دنیا میں کہیں بھی مارنے کیلئے تھوڑی بہت پلاننگ، تھوڑا سا سرمایہ اور ہمت چاہیئے ہوتی ہے۔ مارنے کے بعد کیا نتائج حاصل ہوں گے، یہ سب سے اہم معاملہ ہوتا ہے۔
دشمن نے نہایت سمجھداری اور پلاننگ سے اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا ہے۔ یہ قتل قطر میں بھی ہوسکتا تھا، لیکن ایران کے اندر اس لئے نشانہ بنایا گیا کہ اس سے ایران کو بدنام کرنا مقصود تھا اور فلسطین کاز کو نقصان پہنچانا ہدف تھا۔ یعنی حماس ایران سے بددل ہوگی کہ ایران ان کے رہنماء کی حفاظت ہی نہیں کرسکا۔ بڑے ہدف کیلئے اگر ہزاروں جانیں بھی قربان ہوں، تو تنظیمیں یا لوگ اپنے مقاصد سے ڈر کر پیچھے نہیں ہٹا کرتے، بلکہ ایسی قربانیاں مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہوتی ہیں اور جذبے کو جِلا بخشتی ہیں۔ ان سے تحریک میں شدت آتی ہے۔ تہران میں ہونیوالے اس حملے کا مطلب واضح ہے کہ اب منزل بہت قریب ہے۔ بس دشمن کو گرانے کیلئے ایک دھکا اور چاہیئے۔ اوپر سے اسرائیل سے حماقت یہ ہوئی کہ اس نے بیروت میں بھی حزب اللہ کے کمانڈر فواد شُکر کو ایک حملے میں شہید کر دیا۔ یہ دس ماہ میں دوسری بار ہوا ہے کہ اسرائیل نے بیروت میں حملہ کیا ہے۔ گذشتہ شب ہونیوالی بمباری میں نشانہ فواد شُکر ہی تھے اور اس میں اسرائیل کامیاب رہا۔
ان حملوں اور تہران میں ہونیوالے واقعہ سے معاملات میں مزید شدت آئے گی۔ حزب اللہ اعلان کرچکی تھی کہ اگر بیروت پر حملہ کیا گیا تو حزب اللہ براہ راست فلسطین میں داخل ہو جائیگی۔ لبنان کے وزیراعظم نے بھی بیان دیا تھا کہ اسرائیل نے کوئی جارحیت کی تو یہ لبنان کی خودمختاری پر حملہ تصور ہوگی۔ اب اسرائیل نے سخت جوابی کارروائی کیلئے موقع فراہم کر دیا ہے۔ ایران منظم منصوبے کے تحت انتقام لیتا ہے۔ وہ جلد بازی نہیں کرتا۔ وہ انتقام لے گا اور کوئی بڑی شخصیت نشانہ بن سکتی ہے۔ جو امریکہ یا اسرائیل سے ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم پاکستانیوں میں کچھ کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر معاملے کو فرقہ واریت کی نظر سے دیکھتے کے عادی ہوچکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم دشمن کے عزائم کی تکیمل کر رہے ہوتے ہیں۔ اب تہران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کو بھی تکفیری فرقہ واریت کی عینک سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ اسماعیل ہنیہ کے خاندان سے 70 افراد پہلے ہی جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ کو بھی پتہ تھا کہ اگلا نشانہ وہ ہیں اور وہ اس کیلئے ذہنی طور پر تیار بھی تھے۔
ہمیں فرقہ واریت کی نظر سے دیکھنے کی بجائے اس معاملے کو اس انداز میں دیکھنا ہوگا، جس انداز سے خود حماس اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب حماس نے یہ مقاومت شروع کی، پاکستان کے تکفیری حلقوں میں یہ باتیں ہونے لگیں کہ شیعہ ایران نے سنی حماس کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا۔ یوں ایران دشمنی میں انہوں نے امت کے مشترکہ کاز کو کمزور کرکے دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ اس سے وہ بے نقاب ہوئے اور امت کو پتہ چل گیا کہ تکفیریوں کو ایجنڈا کہاں سے ملتا ہے۔ اب پارا چنار کے زخمیوں کے ایمبولینسز پر حملوں سے بھی یہ مزید بے نقاب ہوئے کہ اسرائیلیوں کے طرز عمل کو اپنائے ہوئے ہیں اور یوں اسرائیل و تکفیری بے نقاب ہوگئے اور واضح ہوگیا کہ دونوں کا ’’سرپرست‘‘ ایک ہی ہے، جو ایک ہی ایجنڈا دونوں کو فراہم کر رہا ہے۔
تہران واقعہ کے بعد چین اور روس کی قیادت کے درمیان بھی رابطے کی اطلاعات ہیں اور دونوں جانب سے ہائی پروفائل افراد کی سکیورٹی کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔ اس حوالے سے ذرائع نے یہ اطلاع دی ہے کہ تہران میں ایک اہم اجلاس ہونے جا رہا ہے، جس میں چین، روس، ایران اور حماس کی قیادت شرکت کر رہی ہے اور مستقبل کے لائحہ عمل پر غور و فکر ہوگا۔ اس کے علاوہ اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ بھی تہران میں کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جس میں دشمن کو پیغام دیا جائے گا کہ ہم شہیدوں کے لہو سے گھبرانے والے نہیں، بلکہ شہید کی موت قوم کی حیات ہوا کرتی ہے
تحریر: تصور حسین شہزاد