میٹ نیلسن نامی امریکی شہری نے غزہ جنگ کے جاری رہنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خود کو آگ لگالی۔ بدھ 11 ستمبر کو نیلسن نے بوسٹن میں اسرائیلی قونصل خانے کے بالکل سامنے فور سیزنز ہوٹل کے باہر خود کو آگ لگا لی۔ اس امریکی شہری نے یہ اقدام غزہ پٹی کے خلاف جاری جنگ میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں 41 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت اور اس حکومت کے ساتھ امریکہ کی ملی بھگت پر احتجاج کیا ہے۔ نیلسن نے اس واقعے سے پہلے جو ویڈیو شائع کی، اس میں اعلان کیا ہے کہ میرا نام میٹ نیلسن ہے اور میں سخت احتجاجی کارروائی کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب غزہ میں جاری نسل کشی کے ذمہ دار ہیں، اس احتجاج کا مقصد امریکی حکومت سے صیہونی حکومت کی مالی امداد بند کرنے کی درخواست کرنا ہے، جو کہ بے گناہ فلسطینیوں کو قید کرنے اور قتل کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
نیلسن نے غزہ پٹی میں نسل کشی کے خاتمے کے لیے صیہونی حکومت پر دباؤ ڈالنے پر بھی زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ "جمہوریت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کی مرضی کے مطابق ہو نہ کہ امیروں کے مفادات کے لیے۔ "اقتدار سنبھالو اور فلسطین کو آزاد کرو۔" نیلسن سے پہلے تین دیگر امریکی شہریوں نے غزہ جنگ کے جاری رہنے اور صیہونی حکومت کے جرائم اور اسرائیل کو بائیڈن حکومت کی جامع حمایت کے خلاف احتجاج میں خود سوزی کا ارتکاب کیا ہے۔ غزہ میں جنگ کے جاری رہنے اور امریکی حکومت کی اسرائیل کی حمایت میں یکطرفہ پالیسی کے خلاف احتجاج میں امریکیوں کی جانب سے خود سوزی کے اہم واقعات میں سے ایک 25 سالہ امریکی فضائیہ کے جوان کی موت کا بھی ہے۔ آرون بشنیل نامی اس افسر نے اتوار 25 فروری 2024ء کی سہ پہر کو غزہ جنگ میں اسرائیل کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے واشنگٹن میں صہیونی سفارت خانے کے سامنے خود کو آگ لگا لی تھی۔
یہ اقدام دنیا کے گرم ترین موضوعات میں سے ایک بن گیا ہے اور غزہ کے لوگوں کے مصائب کو واضح طور پر اجاگر کرنے کا باعث بنا۔ اس امریکی فوجی کی خود سوزی اور اس کے ردعمل کو غزہ کے عوام پر ظلم و ستم اور صیہونی حکومت کی جارحیت اور غزہ پٹی میں جاری نسل کشی کے تحت فلسطینی مزاحمت کے بہاؤ کی ایک اور علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ فوجی وردی میں ملبوس بشنیل نے آن لائن نشر ہونے والے ریمارکس میں کہا، "میں اب نسل کشی کا ساتھی نہیں رہوں گا۔" اس کے بعد، اس نے اپنے آپ پر ایک مائع ڈالا اور خود کو آگ لگاتے ہوئے "آزاد فلسطین" کے نعرے لگائے۔ اس نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا: "ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے آپ سے یہ پوچھنا پسند کرتے ہیں: "اگر غلامی کے دور میں ہوتے تو کیا کرتے۔ اگر میرا ملک نسل کشی کرتا ہے تو میں کیا کروں گا۔؟
بشنیل کے آخری الفاظ تھے "میں احتجاج کا ایک انتہائی اقدام کرنے والا ہوں۔" لیکن فلسطین کے لوگوں نے اپنے نوآبادکاروں کے ہاتھوں جو تجربہ کیا ہے، اس کے مقابلے میں یہ کوئی انتہائی اقدام نہیں ہے۔ ہمارے حکمران طبقے نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ یہ معمول کا حصہ ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ حکام نے بارہا صیہونی حکومت کے ہاتھوں غزہ جنگ کے دوران فلسطینیوں کی نسل کشی کی تردید کی ہے۔ ان میں وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے دعویٰ کیا کہ غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کی شہادتوں کے باوجود جو بائیڈن کی حکومت اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینیوں کے قتل کو نسل کشی نہیں سمجھتی۔ سلیوان نے مئی 2024ء کے وسط میں وائٹ ہاؤس میں کہا کہ امریکہ حماس کی شکست دیکھنا چاہتا ہے: ہم نہیں مانتے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نسل کشی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ صیہونی حکومت کے اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر امریکہ نے اس حکومت کی طرف سے غزہ کی جنگ کے دوران نسل کشی کی تردید کی ہو۔نومبر 2023ء کے اوائل میں جب غزہ جنگ کے آغاز کو ایک مہینہ گزر چکا تھا، وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے دعویٰ کیا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صہیونیوں کے جرائم کی حمایت میں نسل کشی نہیں ہے۔ بلاشبہ گذشتہ چند مہینوں میں غزہ کے شہداء اور زخمیوں بالخصوص بچوں اور خواتین کی تعداد 41 ہزار سے زائد تک پہنچنے کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے بظاہر جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ، ڈیموکریٹک پارٹی کے انتخابی پروگرام کے مسودے میں، جو جولائی کے وسط میں شائع ہوا تھا، میں غزہ میں "فوری اور دیرپا جنگ بندی" اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم اس میں غزہ کے چالیس ہزار سے زائد باشندوں، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں، ان کا کوئی ذکر نہیں ہے، جو حالیہ جنگ کے دوران شہید ہوئے اور نہ ہی اسرائیل کو ہتھیاروں کی امداد محدود کرنے کی ضرورت کا ذکر ہے۔
یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ امریکہ نے حال ہی میں اسرائیل کو مزید 20 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔ صیہونی حکومت کو امریکہ کی وسیع سیاسی اور فوجی حمایت کے باوجود اس حکومت نے غزہ جنگ میں جنگ بندی کی امریکی درخواست سمیت عالمی برادری کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس تمام کے باوجود بائیڈن حکومت اور سینیئر امریکی حکام نے محض انتباہات کا اظہار کیا ہے، جو تل ابیب کے لیے غیر موثر ہیں۔ امریکہ اسرائیل کو غزہ میں جنگ روکنے پر مجبور کرنے کے لیے سیاسی اور مالی دباؤ کا استعمال نہیں کر رہا، جس کے خلاف امریکہ میں ردعمل پایا جا رہا ہے اور لوگ خود سوزیاں کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔
تحریر: سید رضا میر طاہر