جشن میلاد النبیﷺ اور ہفتہ وحدت

Rate this item
(0 votes)
جشن میلاد النبیﷺ اور ہفتہ وحدت

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ۔ ذات باری تعالٰی نے حضور نبی کریم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اور ان تمام جہانوں میں سے بھی ہم وہ خوش نصیب ہیں جو اس نبی پاک کی امت ہیں۔اسی طرح بلاتفریق مذہب و ملت حتٰی مخلوقات عالم و تمام عالمین کیلئے حضور پاک کی ذات مبارکہ رحمت ثابت ہوئی ہے۔ رحمت اللعالمین کی آمد اور جشن صادقین کے ایام کی سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ کیونکہ اسی ہفتے امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت بھی ہوئی ہے۔ یقین جانیں اگر ہم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل پاک کی سیرت اور احکامات پر عمل کریں تو دین و دنیا اور دونوں جہانوں میں کامیابیاں ہمارا مقدر ٹہریں گی۔ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہمارا ایمان ہے اور ان کا کلمہ پڑھنے والا ہی مسلمان کہلاتا ہے۔ اگر عملی طور پر بھی ہم اسے اپنا لیں تو ہماری مشکلات حل ہو جائیں۔ آج ہم مسلمانوں کی مشکلات کی اہم وجہ یہی ہے کہ ہم نے قرآن کا احترام اسے چوم کر اونچے طاقوں میں رکھنے کو قرار دیا اور نبی پاک کی سیرت پر عمل کرنے کی بجائے ان سے صرف جزباتی وابستگی اپنائے رکھی۔

کلام مجید کو چوم کر رکھ دینا قرآن کی عزت نہیں، بلکہ اس کو پڑھ کر اس پر عمل کرنا اس کی صحیح معنوں میں عزت ہے۔ اسی طرح نبی پاک سے جذباتی وابستگی تو ہم سب بڑھ چڑھ کر رکھتے ہیں۔ ان کی محبت کے دعویدار بن کر ایک دوسرے پر گستاخی کے فتوے لگاتے ہیں لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین پر عمل کرنے کی طرف توجہ کم ہے۔ حالانکہ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کے مطابق نماز نہ پڑھنا، جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، برے کاموں سے پرہیزنہ کرنا اور اسی طرح دیگر احکامات کی خلاف ورزی کرنے پر ہم رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں۔ جبکہ ان کی خوشنودی اور کامیابی ان کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور اگرہم صحیح معنوں میں اس پر عمل پیرا ہوتے تو آج عالم اسلام جن مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں اس سے دوچار نہ ہوتے۔

ان ایام میں جہاں بھی جائیں درود سلام نعت کی محفلیں اور مسلمانوں کے اندر جوش و خوش اور محبت دیکھ کرخوشی کا احساس ہوتا ہے۔ ان دنوں میں کلمہ گو مسلمان ایک دوسرے کو گرمجوشی سے مبارکباد پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ مشسمانوں کے اندر وحدت کا جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کے اندر حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی تاریخ ولادت کے حوالے سے کچھ اختلاف ضرور ہے۔ کچھ 12 ربیع الاول اور کچھ 17 ربیع الاول کو رسول پاک کی ولادت کی تاریخ مانتے ہیں۔ لیکن وحدت مسلمین کے داعی اور بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی ؒ نے اس فرق کو بھی ایک خوبصورت شکل میں ڈھال دیا تھا۔ انھوں نے فرمایا کہ مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکت کو اپنے اتحاد کا محور قرار دیں۔ اور 12 یا 17 کی بجائے 12 سے 17 ربیع الاول پورا ہفتہ "ھفتہ وحدت" کے طور پر منایا جائے۔ ان کی اس تجویز کا پورے عالم اسلام میں بھرپور خیرمقدم کیا گيا اور اب پورے ہفتے میں عید میلادالنبی (ص) کے سلسلے میں جشن اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ بہرحال بارہ سے سترہ ربیع الاول تک جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے ایام ہیں، عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے۔ یہ مستحکم حصار اور مضبوط قلعہ اگر تعمیر کر لیا جائے تو کوئی بھی طاقت اسلامی ملکوں اور قوموں کی حدود میں قدم رکھنے کی جرات نہیں کرسکے گی۔

مسلمانوں کیلئے محور کتاب خدا، سنت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور شریعت اسلامیہ کو قرار دیا جائے۔ یہ تو ایسی بات ہے جسے ہر منصف مزاج اور عاقل انسان قبول کرے گا۔ قرآن پاک کہتا ہے کہ "و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا" اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہر مسلمان کا فرض ہے، لیکن قرآن نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا کہ ہر مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے بلکہ حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمان اجتماعی شکل میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں ۔ "جمیعا" یعنی سب کے سب ایک ساتھ مضبوطی سے پکڑیں۔ چنانچہ یہ اجتماعیت اور یہ معیت دوسرا اہم فرض ہے ۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کا بھی خیال رکھنا ہے کہ یہ عمل دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اجتماعی طور پر انجام دیا جانا ہے۔ اس اعتصام کی صحیح شناخت حاصل کرکے اس عمل کو انجام دینا چاہئے۔ 

اس طرح مسلمان اپنا بہترین دفاع کرسکتے ہیں۔ اللہ سے تمسک، توکل اللہ اور ایمانی و روحانی طاقت جیسی نعمتوں کو اگر بروئے کار لائیں گے تو ایک ناقابل تسخیر امت ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ان امور پراللہ سے خلوص کے ساتھ عمل پیرا ہوں۔ اور رب کی عطا کردہ کامیابی اور توکل پر کامل یقین ہو۔ تو کامیابی اور بلندی یقینی ہے۔ کیونکہ اللہ پاک فرماتا ہے۔ " ولینصرن اللہ من ینصرہ" (اللہ اس کی مدد کرےگا جو اللہ کی نصرت کرے گا، حج 40)۔ اور اگر آج ہم اللہ کی مدد کے وعدے یہ تمام وسائل ہونے کے باوجود دنیا میں مشکلات کا شکار ہیں تو اس میں ظاہر ہے خود ہماری کمزوریاں ہیں خامیاں ہیں۔ اگر آج خدا کے عطا کردہ وسائل پر دشمن قابض میں تو اس میں ہم مسلمانوں کی ہی کمزوری ہے۔ آج فلسطین پر مظالم ہورہے ہیں تو یہ مسلمانوں میں اتحاد نہ ہونے کے سبب ہیں۔ کیا یہ سب کو مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے حکم کی خلاف ورزی نہیں ہے؟۔ دشمن ہمیں مختلف فرقوں میں قوم میں نسل میں بانٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے مفادات حاصل کررہا ہے۔ لیکن مسلمان اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مجبور و بے بس ہیں۔ اسلئے آج مسمانوں کی کامیابی کا واحد حل صرف اللہ کی رسی کو مل کر اور مظبوطی سے تھام لینے میں ہے۔اللہ پاک ہمیں اس ماہ مبارک میں اسلام کی تعلیمات اور نبی پاک کی سیرت پر مکمل عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب عالمین۔

Read 53 times