كافی عرصہ سے جنگی میدانوں كی ماہیت تبدیل ہوچكی ہے، قدیم زمانے میں جنگ كی جیت كسی بھی ملک یا زمین پر قبضہ كرنے سے ہوتی تھی، لیكن اب جنگ میں جیت كا پہلا قدم فہم، عقل، فكر و سوچ اور دلوں كو تبدیل كرنا ہے۔ اس كی بہترین مثال امریكہ كا 2003ء میں عراق پر حملہ كرنا ہے، جس میں امریكہ عراق كی سرزمین پر قبضہ كرنے سے پہلے تقریباً ایک سال تک میڈیا كے ذریعے سے عراق پر حملہ آور ہوا، ارادے سُست كیے اور اس كے بعد چند دنوں میں عراق كو اپنے قبضے میں لے لیا اور اُس پر حاكم ہوگیا۔ اس طرح كی فراوان مثالیں آپ كو تاریخ میں ملیں گی۔ ارادوں كی جنگ كا محكم ارتباط شناختی جنگ كے ساتھ ہے، شناختی جنگ سے مراد ایسی جنگ ہے کہ جس جنگ میں میدان ِجنگ معاشره كے پڑھے لكھے لوگ اور عام انسانوں كی سوچ و فكر ہے، اس معنی میں كہ عوام اور پڑھے لكھے طبقہ كی فكری صلاحیت كو تبدیل كیا جاتا ہے۔
پہلے ان كے اعتقادات پر حملہ كیا جاتا ہے اور پھر ان كے رہن سہن كو تبدیل كیا جاتا ہے۔ یہ جنگ، نفسیاتی جنگ سے كئی گنا پچیده و خطرناک ہے، اس جنگ كا بنیادی نتیجہ مضاعف انسانی ہے، یعنی فیزیكلی جنگ میں جب ایک سپاہی مارا جاتا ہے تو فقط ایک نفر كم ہوتا ہے، جبکہ شناختی جنگ میں جب ایک انسان اپنے عقائد میں مردد ہوتا ہے تو ایک نفر كم ہونے كے ساتھ ساتھ دشمن كی صف میں ایک بندے کا اضافہ بھی ہوتا ہے، اس صورت میں كسی بھی دین و ملک كا اصلی سرمایہ (عوام) مورد حملہ واقع ہوتا ہے اور اپنے ملک و اعتقادات كے متعلق بدبین ہو جاتا ہے، اگر یہ جنگ طول پكڑ لے تو عوامی طبقہ كے اندر ایک شگاف پیدا ہو جاتا ہے، جو بلآخر بحران كی شكل اختیار كرلیتا ہے۔
اس میں كوئی شک نہیں ہے کہ ارادوں كی جنگ میں اصلی ترین ہتھیار میڈیا ہے اور میڈیا كی مدد سے مخاطب كے ذہن كو اس طرح سے واش كیا جاتا ہے کہ مخاطب اس واقعہ یا حادثہ كو اس نگاه سے دیكھتا ہے، جس نگاہ سے میڈیا عوام كو دكھانا چاہتا ہے۔ اگر میڈیا كی ذمہ داری ارادے سست كرنا ہو تو سست كرتا ہے اور اگر ارادہ مضبوط كرنا ہو تو مضبوط كرتا ہے، البتہ یہ ہمارے ذہن میں رہے كہ میڈیا خود جنگ نہیں بلكہ ایک جنگی ہتھیار ہے۔ اصلی جنگ، ارادں كی جنگ ہے اور میڈیا كو اپنے دشمن كے ارادے كمزور كرنے كے لیے آلہ كے طور پر استعمال كیا جاتا ہے۔ مقام معظم رہبری نے اپنے خطبات كے اندر كئی بار اس امر پر تاكید كی ہے کہ آج اُمت اسلامی ہوشیار رہے، كیونكہ آج اس كے ساتھ ارادے كی جنگ لڑی جا رہی ہے اور اُمت اسلامی كے حوصلے پست كرنے كے لیے اُن كے ارادے كمزور كئے جاتے ہیں۔
آج ہمارے لیے یہ بات روشن ہے، كیونکہ اگر ہم 57 اسلامی ممالک پر نظر دوڑائیں تو ہمیں دو قسم كے ممالک نظر آئیں گے۔ ایک وه ممالک جن كے پاس ہر چیز ہونے كے باوجود ذلیل ہیں اور كچھ ایسے ممالک ہیں، جو تمام تر سختیوں اور مشكلات كے باوجود اور وسائل كم ہونے كے باوجود دنیا میں عزت مندانہ زندگی گزار رہے ہیں، مثلاً تمام عربی ممالک، تركی، پاكستان وغیره كو اگر دیكھیں تو سب كچھ ہونے كے باوجود امریکہ اور اسرائیل كے غلام ہیں اور ان كی اجازت كے بغیر اپنے ہی ملک كے اندر كوئی كام نہیں كرسكتے بلكہ چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ كے لیے شیطان اكبر امریكہ سے اجازت لینی ہوتی ہے، كیوں ان ممالک كے ساتھ ایسا ہوا ہے۔؟ اس وجہ سے كہ سب سے پہلے ان كو شناختی جنگ كے اندر شكست دی گئی اور ان كے اعتقادات كو ترقی كے نام پر كمزور كیا گیا، ان كو اپنا ہمفكر بنایا گیا۔
اگر ساده الفاظ میں كہا جائے تو ان كی سوچ كو غلام بنایا گیا اور ان پر ارادے كی جنگ مسلط كی گی اور ان كے ارادے سست كئے گئے اور یہ باور کرایا گیا كہ آپ كچھ نہیں كرسكتے، اگر ہم آپ كا ساتھ چھوڑ دیں تو آپ لوگ بھوک سے مر جائیں گے، آپ ڈیفالٹ ہوجائیں گے، ان كی سوچ پہلے سے غلام تھی اور ساتھ میں ارادے بھی سست پڑ گئے اور دشمن نے بغیر حملہ کئے ان ممالک كو تسخیر كر لیا اور آج یہ ممالک جلتے ہوئے فلسطین كو دیكھ رہے ہیں، لیكن ان كے گلے خشک ہیں اور یہ اس قابل بھی نہیں ہیں كہ ایک بیان تک دے دیں۔
دوسری طرف اسلامی ممالک میں چند انگشت شمار ملک ایسے بھی ہیں، جن كے اوپر دشمن كی شناختی جنگ نے كوئی اثر نہیں كیا اور ان كی سوچ كو غلام نہیں بنا سكے اور اسی طرح دشمن كی ارادوں كی جنگ نے بھی كسی قسم كا اثر نہیں كیا اور ان كے ارادے كمزور نہیں كرسكے، جن میں سرفہرست ایران اسلامی ہے، جس كو انقلاب اسلامی سے لیكر آج دن تک مختلف جنگوں میں مشغول ركھا گیا، جب اس حربہ نے اثر نہیں كیا تو پھر سخت ترین پابندیاں لگائی گئیں، اس كے سائنسدانوں كو ٹارگٹ كیا گیا، اس كے دانشمندوں كو ٹارگٹ كیا گیا، اس كے سیاستدان شہید كئے گے، لیكن اس قوم نے ذلت قبول نہیں كی، كیونكہ اس كے ارادے پختہ تھے، اس كے ارادے كمزور و سست نہیں پڑے۔
اسی طرح فلسطین كو دیكھیں، یمن كو دیكھیں، لبنان كو دیكھیں، سوریا و عراق كو دیكھیں، یہ وہ ممالک ہیں، جن كے پاس كچھ بھی نہیں تھا اور دشمن ان كو اپنا غلام بنانا چاہتا تھا، لیكن انہوں نے غلامی كی زنجیریں توڑ ڈالیں، انہوں نے سختیاں قبول كیں، لیكن غلامی قبول نہیں كی۔ یمنیوں نے سعودیہ كے ساتھ سات سال جنگ لڑی، اس وقت پوری دنیا سعودیہ كے ساتھ تھی اور یمنی مجاہد تک و تنہاء تھے، ان مجاہدوں كے پاس پہننے كے لیے جوتے بھی نہیں تھے، لیكن اپنے دشمن كو ناكوں چنے چبوائے اور آخركار ذلت آمیز شكست دی۔ اس حوصلے و جذبے كے پیچھے راز یہ ہے كہ انہوں نے شناختی جنگ میں اور ارادوں كی جنگ میں پورے 100 نمبر لیے، اپنے ارادے سست نہیں ہونے دیئے، اپنے ارادے كمزور نہیں ہونے دیئے اور آج پوری دنیا میں سربلند ہیں اور رہیں گے۔ ان شاء الله۔ علامہ اقبال ؒ كے بقول
ارادے جن كے پختہ ہوں نظر جن كی خدا پر ہو
طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں كرتے
لہذا آج وہ قوم و ملت كامیاب ہوگی، جو ارادوں كی جنگ میں كمزور نہیں پڑے گی اور اپنے ارادے سست نہیں ہونے دے گی، جس قوم كے ارادے سست و كمزور پڑ گئے، غلامی اس كا مقدر بن جائے گی۔
تحریر: تابعدار حسین ہانی