طاقت کا توازن اسلامی مزاحمت کے حق میں

Rate this item
(0 votes)
طاقت کا توازن اسلامی مزاحمت کے حق میں

اسلامی جمہوریہ ایران نے کل رات تل ابیب اور دیگر شہروں میں واقع اسرائیلی فوجی ٹھکانوں اور ایئربیسز پر بڑی تعداد میں بیلسٹک میزائلوں کا نشانہ بنایا ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اس حملے کو "وعدہ صادق 2 آپریشن" کا نام دیا ہے اور اسے شہید اسماعیل ہنیہ، شہید سید حسن نصراللہ اور شہید نیلفروش کے خون کا بدلہ قرار دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اس آپریشن میں 200 کے قریب بیلسٹک میزائل داغے گئے جن میں سے 90 فیصد میزائل اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہےہیں۔ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں وعدہ صادق 2 آپریشن مغربی ایشیا خطے اور عالمی نظم میں اہم تبدیلیاں رونما ہونے کا باعث بنے گا۔ یہ آپریشن طاقت کے توازن کو اسلامی مزاحمت کے حق میں تبدیل کر دے گا۔ اگر غاصب صہیونی رژیم نے اس حملے میں ایران کا پیغام وصول کر لیا تو یقیناً خطہ ماضی کی نسبت زیادہ پرامن اور پرسکون ہو جائے گا۔
 
گذشتہ تقریباً ایک سال سے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے مغربی ایشیا خطے خاص طور پر غزہ اور لبنان میں مسلسل قتل و غارت اور مجرمانہ اقدامات کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ صہیونی حکمران امریکہ اور بعض مغربی ممالک کی غیر مشروط اور بھرپور مدد سے غزہ میں عام فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق غزہ میں تقریباً 80 فیصد رہائشی عمارتیں صہیونی بمباری میں مٹی کا ڈھیر بن چکی ہیں جبکہ اسپتال، اسکول، صحت کے مراکز اور دیگر انفرااسٹرکچر تباہ کر دیا گیا ہے۔ اب تک غزہ جنگ میں 42 ہزار کے قریب فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی ہے۔ مزید برآں، ہزاروں افراد لاپتہ ہیں جبکہ 1 لاکھ کے قریب فلسطینی شہری زخمی ہو چکے ہیں۔
 
لہذا نام نہاد مغربی طاقتوں کی کھلی حمایت کے نتیجے میں صہیونی حکمران مغرور اور سرکش ہو چکے ہیں اور پاگل ہاتھی کی طرح غزہ، لبنان اور ایران میں ریاستی دہشت گردی میں مصروف ہیں۔ صہیونی حکمرانوں نے تمام تر بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھا ہوا ہے جبکہ امریکہ سمیت بڑے مغربی ممالک ان کی لاقانونیت اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی مذمت تک کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ صہیونی رژیم کی ریاستی دہشت گردی کی ایک واضح مثال تہران میں حماس کے سابق سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ ہے۔ شہید اسماعیل ہنیہ سفارتی پاسپورٹ پر ایران آئے تھے اور ان کا مقصد نئے ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شریک ہونا تھا۔ یاد رہے اس تقریب میں دنیا بھر سے 80 سفارتکار موجود تھے۔ ایسے موقع پر شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کا مطلب یہ ہے کہ صہیونی حکمران بین الاقوامی قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔
 
تہران میں شہید اسماعیل کی ٹارگٹ کلنگ کے فوراً بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسرائیل کو سخت انتقام کی دھمکی دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ شہید اسماعیل ہنیہ ایران کے مہمان تھے اور ہم اپنے مہمان کے قتل کا بدلہ ضرور لیں گے۔ اس وقت سے ہی رائے عامہ میں یہ مطالبہ شدت سے پایا جاتا تھا کہ جرائم پیشہ صہیونی رژیم کو اس مجرمانہ اقدام کی سخت سزا دی جائے۔ البتہ اسرائیل سے انتقامی کاروائی کے مقدمات فراہم کرنے میں دو ماہ کا عرصہ بیت گیا اور آخرکار کل بروز منگل یکم اکتوبر 2024ء سپاہ پاسدارانقلاب اسلامی نے 200 بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے تل ابیب کے قریب اسرائیل کے اہم فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنا ڈالا۔ ان میں سے کچھ میزائل ایسے تھے جن کا مقصد اسرائیل کے ایئر ڈیفنس سسٹم کو دھوکہ دینا تھا جبکہ میزائلوں کا دوسرا حصہ مطلوبہ ٹارگٹس کو نشانہ بنانے کیلئے بروئے کار لایا گیا۔
 
امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک نے ایران کی ممکنہ انتقامی کاروائی کا مقابلہ کرنے کیلئے مختلف علاقوں میں ایئر ڈیفنس سسٹم نصب کر رکھے تھے جبکہ خطے کے کئی عرب ممالک بھی اس کام میں ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ یوں اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کو انتقامی کاروائی کی حتمی حکمت عملی تیار کرنے میں کچھ وقت لگ گیا تاکہ ان میزائل ڈیفنس سسٹمز سے بچتے ہوئے اسرائیل میں فوجی ٹھکانوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا جا سکے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ خود صہیونی رژیم کے ذرائع ابلاغ نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ ایران کی جانب سے داغے گئے بیلسٹک میزائلوں کا 90 فیصد حصے کامیابی سے اپنے مطلوبہ ٹارگٹس کو نشانہ بنایا ہے۔ ان حملوں کے بعد صہیونی حکمران اپنے عوام کی جانب سے شدید دباو کا شکار ہو چکے ہیں۔ حتی تل ابیب کے میئر نے بھی فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا ہے۔
 
دوسری طرف علاقائی اور عالمی ذرائع ابلاغ میں غاصب صہیونی رژیم کے خلاف ایران کی انتقامی کاروائی کو وسیع پیمانے پر کوریج دی گئی ہے۔ ان ذرائع ابلاغ نے زمینی حقائق کی روشنی میں ایران کی میزائل طاقت کا اعتراف کیا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کی اکثریت نے بھی ایران کے میزائل حملوں کی کامیابی اور ان کے موثر ہونے کی تصدیق کی ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر بھی صہیونی حکمرانوں خاص طور پر صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نیتن یاہو کے مخالفین ایران کی اس کامیابی انتقامی کاروائی کو اپنی حقانیت کی دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم گذشتہ چند ماہ سے نیتن یاہو کی مخالفت کرنے میں حق بجانب تھے۔ ان کا شروع سے دعوی تھا کہ اسرائیل امریکہ اور مغربی ممالک کی بھرپور مدد کے باوجود ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کو شکست نہیں دے سکتا لہذا اسے فوراً جنگ بندی کرنی چاہئے۔

تحریر: سید رضا صدرالحسینی

Read 45 times